ہندوستان (ہمگام نیوز ڈیسک) بلوچ قوم پرست رہنما حیربیار مری بروز بدھ 25 ستمبر 2019 کو گوہاٹی کے لکھاریوں کے ساتھ بات چیت کریں گے.
میڈیا اطلاعات کے مطابق بلوچ آزادی پسند رہنما اور فری بلوچستان موؤمنٹ کے قائد حیر بیار مری اسلام آباد کے خلاف بلوچ جہد آزادی کی داستان اور اس میں ہندوستان کی ممکنہ شراکت داریوں پر بات چیت کریں گے.
فری بلوچستان موومنٹ کے رہنما بروز بدھ شام چار بجے گوہاٹی پریس کلب کے ممبران کے ساتھ ویڈیو کانفرنس کے ذریعے گفتگو کریں گے.
حیربیار مری بلوچستان کے بزرگ بلوچ قوم پرست رہنما نواب خیربخش مری کے گھر میں پیدا ہوئے. انہوں نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ اور کابل (افغانستان) میں مکمل کی اور پھر صحافت کی تعلیم حاصل کرنے کیلئے روس چلے گئے۔ اسّی کی دہائی میں وہ اپنے والد خیربخش مری اور دیگر خاندان والوں کے ہمراہ افغانستان چلے گئے.
حیر بیار مری وقتاً فوقتاً ہلمند جایا کرتے تھے جہاں پاکستانی ظلم و جبر سے فرار ہونے والے بلوچ پناہ گزین رہائش پزیر تھے. حیربیار مری نوے کی دہائی کے اوائل میں ہی بلوچستان لوٹ آئے۔ 1997 میں انہوں نے بلوچستان کے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور اکثریتی ووٹوں سے کامیابی حاصل کی۔ وہ اسلام آباد کی وفاداری کا انکار کرنے والے سب سے کم عمر بلوچ وزیر تھے۔
ان الفاظ کے بجائے کہ “میں پاکستان کے ساتھ وفادار رہوں گا” انہوں نے عزم کیا کہ “میں اپنی قوم کے ساتھ وفادار رہوں گا”۔ حیربیار مری وہ پہلے بلوچ وزیر تھے جنہوں نے بلوچستان میں 1998 کے جوہری تجربات کی سخت مخالفت میں احتجاج کیا تھا۔
حیر بیار مری برطانیہ میں جلاوطنی اختیار کرنے کیلئے 1999 میں یورپ چلے گئے اور اِسی سال ایک فوجی بغاوت کرتے ہوئے پرویز مشرف نے اسلام آباد میں اقتدار پر قبضہ جما لیا اور تمام صوبائی حکومتوں کے ساتھ ساتھ نواز شریف کی حکومت کو بھی برخاست کردیا۔
بلوچستان ہائی کورٹ کے ایک جج (نواز مری) کو سن 2000 کے اوائل میں شرپسندوں نے قتل کردیا تھا، لیکن مشرف حکومت نے ان کے والد کو متعدد مری قبائلیوں سمیت گرفتار کر لیا۔ حیربیار مری اور ان کے بھائیوں کو بھی اس قتل کیس میں ملوث قرار دیا گیا۔ 4 دسمبر 2007 کو اسلام آباد میں فوجی حکومت کے کہنے پر حیربیار مری کو گرفتار کر لیا گیا اور برطانیہ کے “ہائی سیکیورٹی”بیلمارش جیل میں ڈال دیا گیا۔
فیض بلوچ کے ساتھ وہ پہلے بلوچ ہیں جنہوں نے بلوچ مقصد کی خاطر بیرون ملک سزا کاٹی، بعد ازاں فروری 2008 تک برطانوی عدالت نے دونوں کو دہشت گردی کے الزامات سے بری کردیا۔ وہ آزاد بلوچستان کے مطالبے پر قائم ہیں۔وہ بات چیت اور مذاکرات کے لئے تیار ہیں لیکن کسی بھی مذاکرات کے مندرجات کو بلوچستان کی آزادی کے نقطے سے مشروط کرتے ہیں۔ وہ ایسے کسی بھی مذاکرات اور بات چیت سے انکار کرتے ہیں جس میں بلوچستان کی خود مختار حیثیت کی بحالی ایجنڈے میں شامل نہ ہو۔