زاہدان( ہمگام نیوز ) دی ٹائمز آف اسرائیل کے مطابق ایک ایرانی عدالت نے شمالی ایران میں ایک پولیس سربراہ کو 2022 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کے دوران ایک شخص کو قتل کرنے کا الزام عائد کرنے کے بعد موت کی سزا سنائی ہے، مقامی میڈیا نے بدھ کو رپورٹ کیا۔
مقامی پولیس کے سربراہ جعفر جوانمردی کو دسمبر 2022 میں مہسا امینی کی حراست میں ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے وسیع مظاہروں کے دوران ایک مظاہرین کی ہلاکت پر گرفتار کیا گیا تھا۔
22 سالہ ایرانی کرد امینی اسی سال ستمبر میں خواتین کے لیے ملک کے سخت (ڈریس کوڈ) کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتاری کے بعد حراست میں انتقال کر گئیں۔
مقتول کے خاندان کے وکیل ماجد احمدی نے اصلاحی روزنامہ شارگ کو بتایا کہ جاونمردی کو “اسلامی قانون کے بدلے میں، جسے ‘قصاص’ قانون کے نام سے جانا جاتا ہے، پہلے سے سوچے سمجھے قتل کے الزام میں سزائے موت سنائی گئی۔”
مظاہرین، 27 سالہ مہران سماک، 30 نومبر 2022 کو شمالی شہر بندر انزالی میں ایک ریلی کے دوران شاٹ گن پیلٹ لگنے کے بعد زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔
ایران سے باہر مقیم انسانی حقوق کے گروپوں نے کہا کہ سماک کو ایرانی سیکورٹی فورسز نے اس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا جب وہ امینی احتجاج کے دوران قطر میں منعقدہ 2022 ورلڈ کپ میں امریکہ کے ہاتھوں ایران کی شکست کی خوشی میں اپنی گاڑی کا ہارن بجاتے تھے۔
اس شکست نے ایران کو فٹ بال ٹورنامنٹ سے باہر کر دیا اور حکومت کے حامیوں اور مخالفین کی طرف سے ملا جلا ردعمل ظاہر کیا۔
مخالفین نے مبینہ طور پر شکست کا جشن منایا کیونکہ فٹ بال ٹیم کو حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ سماک کی شوٹنگ نے مزید مظاہروں کو جنم دیا اور اس کی اپنی گاڑی میں گرے ہوئے ایک گرافک ویڈیو کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا گیا، جس میں اس کی ایک تصویر حکومت مخالف سرگرمی کا آئیکن بن گئی۔
وکیل احمدی نے اس وقت کہا تھا کہ پولیس اہلکار پر “آتشیں ہتھیاروں کے استعمال کے قوانین کی خلاف ورزی کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں سماک کی موت واقع ہوئی تھی۔”
جنوری کے وسط میں، عدلیہ کی میزان آن لائن ویب سائٹ نے کہا کہ سپریم کورٹ نے سزائے موت کو کالعدم قرار دے کر کیس کو دوسری عدالت میں بھیج دیا ہے۔
صوبہ گیلان، جہاں بندر انزالی واقع ہے، ملک گیر احتجاجی تحریک کا ایک فلیش پوائنٹ تھا جس نے ایران کو ہلا کر رکھ دیا۔
کئی مہینوں تک جاری رہنے والے مظاہروں کے دوران سینکڑوں افراد مارے گئے، جن میں درجنوں سیکورٹی فورسز بھی شامل ہیں، جب کہ ہزاروں کو گرفتار کیا گیا اور مظاہروں سے منسلک مقدمات میں نو افراد کو پھانسی دی گئی۔
واضح رہے کہ ایران نے عوام کو خاموش کرانے اور بیرونی دنیا کو یہ باور کرانے کے لئے یہ اقدامات اٹھاتا ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے جبکہ بلوچ کے معاملے میں ایران نے ہمیشہ کسی بھی ایرانی آرمی مجرم کو سزا دینا تو دور کی بات ہے ان کو اف تک نہیں کہا گیا ہے ، ایرانی میڈیا نے یہ بات اس لیئے ظاہر کی ہے کہ تاکہ ایران پر اس معاملے میں بیرونی دباؤ کم ہوجائے اور عوام کا منہ بند ہوجائے۔