تہران: (ہمگام نیوز) پاسداران انقلاب کے ایک سینئر رہنما محمد رضا زاہدی حملے سے ایک دن پہلے شام پہنچے تھے۔ایرانی ذرائع
قابض ایرانی فوجی رہنماؤں کا خیال تھا کہ دمشق میں ایرانی سفارت خانے کا کمپاؤنڈ ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ ہے۔ شام پر کئی مہینوں کے بار بار اسرائیلی حملوں کے بعد اس یقین کے ساتھ کہ سفارت خانے کو سفارتی مشنوں کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی اصولوں کے تحت محفوظ کیا گیا تھا۔ ایران اور شام اور خطے کے ایک درجن سے زیادہ عہدیدار موجود تھے تاہم ان کا یہ خیال غلط ثابت ہوا۔ پیر کے روز کمپلیکس پر ایک فضائی حملے میں سات ایرانی مارے گئے۔ جن میں ایرانی پاسداران انقلاب کے ایک سینئر کمانڈر محمد رضا زاہدی بھی شامل تھے۔
یہ حملہ دسمبر کے بعد سے شام میں ایرانی اہلکاروں کو نشانہ بنانے والے حملوں کے سلسلے میں سب سے بڑا حملہ ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد کے لحاظ سے بھی یہ سب سے بڑا حملہ ہے۔ حملے کا الزام تہران نے اسرائیل پر لگایا ہے۔ یہ دنیا میں کہیں بھی سفارتی احاطے پر ایک غیر معمولی فوجی حملہ تھا۔ اسی وجہ سے اقوام متحدہ اور یورپی یونین نے فوری طور پر مذمتی بیانات جاری کر دئیے۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے یہ حملہ اسرائیل کی وسیع تر مہم میں ایک خطرناک اضافہ ہے۔ اس کی اہمیت شام میں ایک گزشتہ دہائی میں قائم ہونے والے ایران اثر و رسوخ کو کم کرنے کے حوالے سے بھی ہے۔ ایک ایرانی ذریعہ نے معاملے کی حساسیت کی بنا پر اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ رضا زاہدی حملے سے تقریباً 24 گھنٹے قبل شام پہنچے تھے اور دو دیگر اعلیٰ کمانڈروں کے ساتھ سفارت خانے کے احاطے میں موجود تھے۔ ذرائع نے مزید بتایا کہ تینوں رہنما آپریشنل لاجسٹکس اور کوآرڈینیشن کے کام پر بات چیت کے لیے شام میں تھے۔
رضا زاہدی قدس فورس کے ایک نمایاں رہنما تھے جو خطے میں تہران کے اتحادیوں بشمول لبنانی حزب اللہ کو ایرانی حمایت کی ہدایت کرتی ہے۔ وہ چار سال قبل امریکہ کی طرف سے بغداد میں ایک ڈرون حملے میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد سے پاسداران انقلاب کے مارے جانے والے اعلیٰ ترین کمانڈر تھے۔ جس انداز میں سفارت خانے پر حملے کا یہ واقعہ پیش آیا ہے اس سے غزہ میں بھی صدمے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ یوریشیا گروپ کے تجزیہ کار گریگوری برو نے کہا کہ میری نظر میں یہ اپنی نوعیت کا الگ واقعہ ہے۔ انہیں یاد نہیں کہ کسی ملک نے اس طرح کسی دوسرے ملک کی سفارتی موجودگی کو براہ راست نشانہ بنایا ہو۔
انہوں نے کہا پاسداران انقلاب کے افسران کا غالباً یہ خیال تھا کہ وہ اس وقت تک محفوظ ہیں جب تک وہ سفارتی احاطے میں ہیں۔ میں تصور نہیں کرتا کہ پاسداران انقلاب کا کوئی افسر اس وقت خود کو محفوظ محسوس کر رہا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر علی خامنہ ای کی جانب سے بدلہ لینے کے عزم کے ساتھ، سفارت خانے پر حملے کے نتائج سے اس تنازعے میں مزید شدت آنے کا خطرہ ہے۔ لیکن ایرانی حکام نے عندیہ دیا ہے کہ تہران اکتوبر کے بعد سے اپنائے گئے اندازِ فکر سے انحراف نہیں کرے گا۔ اس کا مقصد اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کرنا اور اپنے ان اتحادی گروپوں جو اسرائیل، امریکی افواج اور بحیرہ احمر میں بحری جہازوں پر حملہ کر رہے ہیں کی حمایت کرتے رہنا ہے۔
ایک تیسرے ایرانی ذریعے اور اعلیٰ عہدیدار نے کہا کہ تہران اسرائیل کو ایسے حملوں یا کشیدگی کو دہرانے سے روکنے کے لیے سنجیدہ ردعمل دینے پر مجبور ہے۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ ایران کے ردعمل کی سطح محدود ہوگی اور اس کا مقصد آئندہ ایسے حملوں کی روک تھام ہوگا۔
اسرائیل نے پیر کے حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ اسرائیل شام میں اپنی کارروائیوں پر شاذ و نادر ہی تبصرہ کرتا ہے۔ تشاتام ہاؤس میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے پروگرام کی نائب سربراہ صنم وکیل نے کہا کہ یہ حملہ شام اور وسیع علاقے میں اسرائیلی انٹیلی جنس کی درست نوعیت کو ظاہر کرنے کی حالیہ مثال ہے۔ انہوں نے ایک اسرائیلی حملے کا حوالہ دیا جس کے نتیجے میں 2 جنوری کو بیروت کے جنوبی مضافاتی علاقوں میں فلسطینی حماس تحریک کے ایک سینئر رہنما کی کی بھی موت ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے انتظامی ذمہ داریاں نبھانے والے اہلکاروں کی انتہائی اعلیٰ سطح کی ہلاکتوں کا مشاہدہ کیا ہے۔ زاہدی کو نشانہ بنانے والا حملہ گزشتہ چھ ماہ کے دوران مزاحمت کے محور کی آپریشنل صلاحیتوں کو کمزور کرنے کے اسرائیل کے وسیع ہدف سے متعلق ہے۔
سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ گذشتہ ہفتے اسرائیل نے شام میں اپنا ایک خونریز حملہ کیا جس میں 33 شامی اور حزب اللہ کے چھ جنگجو مارے گئے۔ اسرائیل نے اکتوبر سے جاری جنگ کے دوران لبنان میں حزب اللہ کو بھی بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ حزب اللہ کے تقریبا 250 جنگجو مارے گئے ہیں جن میں اہم کمانڈر بھی شامل ہیں۔
ایرانی سکیورٹی ذرائع نے میڈیا کو بتایا ہے کہ تہران مزید تفصیلات میں جائے بغیر اس حالیہ حملے کی روشنی میں اپنے طریقوں میں تبدیلی لائے گا۔ تہران کے قریبی ایک علاقائی ذریعے نے بتایا اسرائیل کی جانب سے سفارتی اصولوں کی خلاف ورزی کے بعد شام میں اب کوئی محفوظ جگہ نہیں رہی ہے۔
رائٹرز نے فروری میں اطلاع دی تھی کہ پاسداران انقلاب نے اپنے رہنماؤں پر اسرائیلی حملوں کی لہر کے نتیجے میں شام میں سینئر افسران کی تعیناتی کو کم کر دیا ہے۔ ذرائع نے اس وقت کہا تھا کہ پاسداران انقلاب نے شامی حکام کے ساتھ خدشات کا اظہار کیا ہے کہ شامی سکیورٹی فورسز کے اندر سے افشا ہونے والی معلومات نے ان حملوں میں کردار ادا کیا ہے۔ ایک ایرانی سکیورٹی ذریعہ نے کہا ہے کہ تہران اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا رضا زاہدی کی نقل و حرکت اسرائیل کو لیک تو نہیں ہوئی۔
ایران نے 2011 میں شروع ہونے والی جنگ کے دوران بشار الاسد کی حمایت کے لیے شام میں اپنے افسران اور اتحادی مسلح دھڑوں کو تعینات کیا تھا۔ شامی حکومت کا کہنا ہے کہ وہ دمشق کی دعوت پر مشیروں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
تل ابیب یونیورسٹی میں الائنس سنٹر فار ایرانی سٹڈیز کے محقق راز زیمت نے کہا کہ رضا زاہدی نے شام اور لبنان میں ایرانی سرگرمیوں کے استحکام کو منظم کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ شام میں ان کے عظیم تجربے اور طویل موجودگی کی وجہ سے ان کی جگہ لینا مشکل ہو گا۔ اب حملے کا بنیادی مقصد یہ ظاہر کرنا تھا کہ کوئی بھی جگہ اسرائیل کی پہنچ سے باہر نہیں ہے۔ میرے خیال میں اسرائیل کے لیے سب سے اہم مسئلہ ایران کو یہ پیغام دینا ہو سکتا ہے کہ ایران مزید ہم آہنگی کے ساتھ اپنے اہم کردار کے نتائج سے نہیں بچ سکتا۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر پیر کے حملے میں اسرائیل کے ملوث ہونے کی تصدیق کرنے سے انکار کر دیا تاہم کہا کہ متعدد اعلیٰ ایرانی اہلکاروں کا ایک جگہ پر جمع ہونا غیر معمولی تھا۔ جس نے بھی یہ حملہ کیا ہے وہ یقینی طور پر اس نایاب موقع سے فائدہ اٹھانے سے محروم نہیں ہونا چاہتا تھا۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل گوتریس کے ترجمان نے کہا کہ گوتریس نے ایرانی سفارتی ہیڈ کوارٹرز پر حملے کی مذمت کی ہے ۔ تاہم اسرائیلی اہلکار نے کہا کہ مرنے والوں کی شناخت اس بات کا اعتراف ہے کہ کسی ملک میں سفارتی مشن کو فوجی ہیڈکوارٹرز کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے دمشق میں حملے کا نشانہ بننے والی عمارت کی حیثیت کی تصدیق نہیں کی ہے لیکن اگر یہ عمارت سفارتی سہولت تھی تو یہ قابل تشویش بات ہے۔