دمشق: (ہمگام نیوز) دمشق میں ایران کے قونصل خانے پر پیر کا اسرائیلی فضائی حملہ 2020 میں قدس فورس کے سربراہ قاسم سلیمانی کی امریکہ کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد ایران کے لیے سب سے بڑا دھچکا تھا۔ نہ صرف ہلاکتوں بلکہ اس وجہ سے بھی یہ حملہ اضافی اہمیت کا حامل تھا کہ اس نے ایک ایرانی سفارتی مرکز کو نشانہ بنایا جس کی بنا پر یہ مؤثر طریقے سے اسرائیل کی طرف سے ایرانی سرزمین پر حملہ تھا۔
تہران کے سفیر کے مطابق ایف-35 لڑاکا طیاروں کے ذریعے کیے گئے اس حملے میں ایرانی سفارت خانے سے متصل قونصل خانہ مسمار ہو گیا۔ ایران کے سرکاری میڈیا نے 13 ہلاکتوں کی اطلاع دی ہے جن میں ایران کے سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی (آئی آر جی سی) کے سات ارکان اور چھ شامی شہری شامل ہیں۔
ہلاک شدہ آئی آر جی سی کے ارکان میں دو اعلیٰ سطحی کمانڈر شامل تھے: محمد رضا زاہدی اور ان کے نائب محمد ہادی حاجی رحیمی۔ زاہدی جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ بنیادی ہدف تھے، نے طویل عرصے تک شام اور لبنان میں قدس فورس – آئی آر جی سی کی غیر ملکی کارروائیوں کی شاخ – کی کارروائیوں کی نگرانی کی تھی۔
ان اعلیٰ کمانڈروں کی ہلاکت اور ایک ایرانی سفارتی مرکز پر حملے سے ممکنہ ایرانی جوابی کارروائی کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔ اکتوبر میں غزہ جنگ کے آغاز سے کئی اعلیٰ فوجی شخصیات کا نقصان برداشت کرنے کے باوجود ایران نے اسرائیل پر براہِ راست حملوں سے گریز کیا ہے۔
یہ پابندی ممکنہ طور پر 1979 میں اسلامی انقلاب کے بعد سے ہی اسلامی جمہوریہ کی بنیادی توجہ اپنے تحفظ پر مرکوز ہونے کی وجہ سے ہے۔ اسرائیل اور اس کے بنیادی حامی امریکہ کے ساتھ ایک صریح جنگ ایرانی حکومت کی بقا کے لیے ایک بڑا خطرہ بن جائے گی۔ جنوبی کیرولائنا کی کلیمسن یونیورسٹی میں تاریخ اور سیاسیات کے سینئر لیکچرار آرش عزیزی نے بتایا کہ ایران کی جانب سے اسرائیلی اہداف بالخصوص اہم مقامات کے خلاف براہِ راست کارروائی کا امکان نہیں ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو جن کا ملک تقریبا چھ ماہ سے غزہ میں ایران کے حمایت یافتہ فلسطینی گروپ حماس کے ساتھ جنگ میں الجھا ہوا ہے، عزیزی نے ان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جوابی کارروائی کے دباؤ کا سامنا کرنے کے باوجود ایران اس چیز سے بچنے کی کوشش کر سکتا ہے جس کو انہوں نے “نیتن یاہو کا چارہ” کہا ہے۔
اسرائیل جو شام میں ایران سے منسلک اہداف کے خلاف مسلسل فضائی حملوں کے لیے مشہور ہے، نے اس حملے کے حوالے سے اپنی روایتی خاموشی برقرار رکھی۔ تاہم نیویارک ٹائمز کے حوالے سے نامعلوم اسرائیلی حکام نے اسرائیل کی ذمہ داری کو تسلیم کیا۔