حب (ہمگام نیوز) آج کے اس پریس کانفرنس کا مقصد آپ صحافی حضرات سمیت انسانی حقوق کے اداروں کی توجہ اس جانب مبذول کرانا مقصود ہے کہ 8 اکتوبر رات دس بجے میرے بڑے بھائی جنید حمید جو گھر سے نکل کر باہر چلاگیا انہوں نے دیر کردی تو ہم نے انہیں کال کیا تو اس کا نمبر بند جارہا تھا پوری رات اگلے صبح تک ٹرائی کرتے رہے نمبر بند جارہا تو ہمارے والد صاحب نے حب سٹی تھانہ میں درخواست جمع کرائی کہ میرا بیٹا رات سے لاپتہ ہے اگلی شام لوگوں سے ہمیں پتا چلا کہ بھوانی شاہ پمپ کے قریب سے میرے بڑے بھائی جنید حمید ولد عبدالحمید کو تین گاڑیوں پر مشتمل ایک درجن کے قریب مسلح افراد نے بندوق کے زور پر اغواء کرکے زبردستی اپنے ہمراہ لے گئے۔
صحافی حضرات!
28 سالہ میرا بھائی جنید ولد عبدالحمید اسی صنعتی شہر حب میں ایک کمپنی OTsuka پاکستان لمیٹڈ میں ملازم ہے اور اہل علاقہ بھی اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ میرا بھائی کسی بھی قسم کے سیاسی یا کسی دوسرے مزہبی سرگرمی میں کبھی بھی شامل نہیں رہا ہے۔
معزز صحافی خضرات!
کیا بلوچستان کے عوام انسان نہیں ہے؟ کیا دنیا کے انسانی قوانین بلوچستان پر لاگو نہیں کئے جاسکتے؟ کیا انسانی حقوق کے دعویدار تنظیمیں اور سیاسی جماعتیں یا حکومتیں اتنی طاقت اور اختیارات نہیں رکھتی کہ وہ زندہ انسانوں کو مردہ انسان میں تبدیل کرنے کے خلاف کوئی اقدام اٹھائیں؟ کیا بلوچستان کے عوام ساری زندگی اس اذیت ناک درد کے ساتھ زندگی گزاریں گے؟
معزز صحافی حضرات!
بلوچستان میں ہر شخص کی ایک درد ناک کہانی ہے۔ کسی کا بیٹا لاپتہ ہے تو کسی کا بھائی، کسی کا شوہر لاپتہ ہے تو کسی خاندان کا چشم چراغ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو کر خود کشی پر مجبور ہے، ایسے محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان پر آسیب کا سایہ ہے جو ہر طلوع ہونے والے دن ہمارے لہو کو نچوڑ کر ہمیں مختلف بیماریوں کا شکار بنارہا ہے اور ان کی ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو لوگوں کو جبری گمشدہ کرتے ہیں اور وہ لوگ ذمہ دار ہے جو اس ظلم پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں۔
اس لئے ہمارا مطالبہ و اپیل ہے کہ حکومت اور حکومت کے سیکیورٹی ادارے میرے بھائی کو بازیاب کریں اور ساتھ ہی ہم انسانی حقوق کے مقامی و ملکی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ میرے بھائی جنید ولد عبدالحمید کی گمشدگی کی نوٹس لیتے ہوئے انکی باحفاظت بازیابی میں ہمارے ساتھ دیں۔
پریس کانفرنس کے آخر میں ہم بتانا چاہتے ہیں کہ اگر جنید ولد حمید کو بازیاب نہیں کیا جاتا تو ہم اہل خانہ احتجاج پر مجبور ہونگے۔