یکشنبه, سپتمبر 22, 2024
Homeآرٹیکلزمشترکہ قومی قیادت،ریاست کی تشکیل کا نعم البدل | ارچن بلوچ

مشترکہ قومی قیادت،ریاست کی تشکیل کا نعم البدل | ارچن بلوچ

تحریر: آرچن بلوچ

   ہمگام آرٹیکل   

 

جس گناہ نے گزشتہ کئی سالوں سے بلوچ آزادی کی تحریک کو قومی تحریک کا روپ دھارنے نہیں دیا وہ آج تک ہمارے تحریک کا پیچھا نہیں چھوڑ رہا، اس گناہ کو ہم original sin کا نام دے تو زیادہ بہتر ہوگا ۔ اور یہ گناہ ایک ایسا سوچ ہےجسے اگر اکیڈمک حوالے سے پرکھا جائے تو طبقاتی بیہودگی کے سوا اور کچھ بھی نظر نہیں آتا ۔ 1967 میں جب بی ایس او بنی تو اسی وقت اس طبقاتی بیہودگی کی گمراہ کن اصطلاح کو بلوچ سیاست میں لایا گیا، اور اسی اصطلاح نے ہر”سیاسی لٹیرے“ کے لوٹنے کی کام کو ایک آسان جواز مہیا کیا ۔ قومی آزادی و حق حاکمیت کی شعور کی کمی اپنی جگہ، لیکن اگر تھوڑا بہت جو حاصل قومی شعور میسر تھا تو اس شیطانی و گمراہ کن طبقاتی اصطلاح نے اس تھوڑے سے حاصل قومی شعور کو بھی دو لائنوں میں تقسیم کردیا۔ اس کی ابتداء بی ایس او کی طبقاتی بنیاد پر نظریاتی تقسیم یعنی ” اینٹی سردار بی ایس او“ اور ”عوامی بی ایس او“ کی شکل سے شروع ہوئی۔ یہ طبقاتی تقسیم چلتے چلتے ڈاکٹر یاسین تک پہنچ گئی، یہاں قومی سوچ نے اس طبقاتی سوچ کی منقسمانہ پروسیس پر قابو پالیا جس کی وجہ سے وانندہ آزادی پسند تقسیم ہوتے رہے، شہید فدا احمد بلوچ کی سربراہی میں سنجیدہ اور خالص قومی سوچ نے جڑ پکڑنا شروع کردیا ۔ شہید فدا احمد کی سربراہی میں آزادی پسندوں نے اُس وقت کے بی ایس او کے چیئرمین ڈاکٹر یاسین کو تین نقاط پر مشتمل قومی حق خود اداریت کا ایک قومی پروگرام دیا تاکہ قومی تحریک کو نظریاتی حوالے سے نوجوانوں کی درست رہنمائی ہو کر تحریک کو درست ڈگر پر لایاجائے، یاسین بلوچ نے اس قومی پروگرام کو لیکر ایک پریس کانفرنس کے زریعے تمام آزادی پسند اسٹیک ہولڈرز کو دعوت دی کہ نمبر 1۔ غیر طبقاتی جد وجہد برائے حق خود ارادیت و قومی خودمختاری نمبر 2۔ ترقی کا غیر سرمایہ دارانہ راہ، نمبر 3۔ جمہوری اصولوں کے تحت کم سے کم نقاط پر مشتمل ہمیں مشترکہ جد و جہد کرناچاہیے۔

 

لیکن بدقسمتی سے بی ایس او یاسین کابینہ کی اس وقت کی شاطر جنرل سیکرٹری ڈاکٹر کہور اور رازق بگٹی ماؤزے تنگ کی طبقاتی سوچ کے نعرے کو لیکر خالص نئی قومی تحریک کے نظریے کے سامنے پہاڑ کی مانند آکر کھڑے ہو کر بہت سے بلوچ نوجوانوں کو فکری کجروی کا شکار بناکر بی ایس او کو دو لخت کردیا۔ پھر اختلافات کا ایک سلسلہ شروع ہوا ، اسی اختلافی ماحول کے آڑ میں فدا احمد کو شہید کیا گیا، فدا ان طبقاتی سیاسی لٹیروں نے ایک بار پھر اس نئی بننے والی قومی سوچ کو لوٹ لیا۔ اور پھر اس کے بعد جتنے بھی مضبوط آزادی پسند سیاسی رہنما تھے ان کو قتل کرنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا، جن میں شہید مجید بزنجو، شہید اسلم جان گچکی، شہید ایوب بلیدی، شہید عارف جان محمد حسنی اور حسن گچکی،۔ یعنی شہید فدا دور کے تمام مضبوط آزادی پسندوں کو منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل کیا گیا۔

 

ان شھداء میں گمان کیا جا رہا ہے کہ کراچی بوہرہ بمب دھماکے میں فدا احمد شھید کے بڑے بھائی شھید خان صابر بھی شامل ہیں۔

 

یعنی اس نئی ”قومی سوچ“ کے ظہور ہوتے ہی اسے مضبوط رہنماؤں سے decapitate کیا گیا، اور باقیوں کو ڈرا دھمکا کر خریدا گیا، شہید غلام محمد کی نبشتانک “سقوط بولان” کو پڑھ لیں، باقیوں کے روداد وہاں آپ کو ملینگے۔ پھر ”بڑے سیاسی لٹیرے“ نے ایک اچھی خاصی تحریک کو پارلیمانی سیاست کے تجربے کے نام پر بڑی آسانی سے دشمن کے گھود میں لاکر ڈال دیا۔

 

موجودہ مزاحمتی تحریک بھی سیاسی لٹیروں کی دست برد اور ریشہ دوانیوں سے خود کو نہیں بچا پایا۔ یہ بھی اب دو فکری لائنوں میں تقسیم ہوچکا ہے، سیاسی اعتبار سے ماسٹر سلیم اور واحد قمبر کا تعلق بھی اینٹی سردار بی ایس او سے ہی رہا ہیں ، اسی لیے جب ان کو بی ایل اے جوائن کرنے کی دعوت دی گئی تو انہوں بی ایل اے کو جوائن کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنا الگ تنظیم بی ایل ایف تشکیل دی، بقول ان کے ” بی ایل اے سرداروں کی تنظیم ہے ، ان کا کیا بھروسہ وہ کل پاکستانی سیاست کو جوائن کرینگے لہذا ہم اپنا جہد بی ایل ایف کی پلیٹ فارم سے جاری کرینگے” اس طبقہ والی نظریاتی تقسیم نے آج تحریک کو کس حال میں چھوڑرکھا ہیں ؟ یعنی شروع سے گمراہ کن طبقاتی نفاق کا بیج ان لوگوں نے بویا ہے، جو آج ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اور تحریک کو قومی بننے نہیں دے رہا ۔ متوسطوں کی بلا سے اس تحریک کی قومی چہرہ مسخ ہوتا جا رہا ہے، اسے بھی سیاسی لٹیروں نے اب تقریبا طبقاتی تحریک میں تبدیل کردیا ہیں ، اسلم بلوچ نے بابا مری کی قومی کریڈٹ کارڈ کو اسکریچ کیا تو اُسے اس میں ایک سردار نظر آیا۔ بابا مری اپنے قومی موقف اور قومی نظریہ کے حوالے سے ایک کھلی کتاب کی مانند تھی، اسلم کو اس کی credibility اسکریچ کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ہاں البتہ ہوسکتا ہے کہ بابا مری نے خالص بلوچ قومی نظریہ کو پاکستانی سیاست کے mix up سے محفوظ تو کر لیا لیکن اسے اس بات کا ادراک نہیں ہوا ہوگا کہ اندرونی تنظیمی معاملات محکوم و ستم رسیدہ متوسطوں کی نازک مزاجی یا اپنے گروہی مفادات کی خاطر تحریک کو طبقاتی لائنوں پر تقسیم کریگی۔ بہرحال، اگر تحریک قومی نجات کی ہے تو اس میں ہر فرد چاہے سردار ہو یا شوان،بزگر سب بیرونی قبضہ گیریت کے زیر سایہ مظلومیت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، ایک اکیلا متوسط طبقہ نہیں۔

 

مشترکہ سیاسی قیادت کی قیام اور ضرورت اس لیے اولین شرط ہے کہ یہ ریاست کی تشکیل state formation کا نعم البدل ہوگا۔ دنیا اور قوم کے سامنے مشترکہ سیاسی قیادت ہی قومی تحریک کا چہرہ ہوگا۔ یہ قومی تحریک کی سیاسی قیادت کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ قومی تحریک کے اندرونی اور بیرونی ضروریات کو پورا کرے۔ ریاستی جبر اور سفاکیت کے سامنے تحریک کے امید کے بارے عوامی اعتماد کو متزلزل ہونے سے بچائے ۔ اس لیے دنیا اعتماد کے ساتھ ایسے ہی قیادت کے ساتھ معاملات طے کرے گا، جو قومی تحریک کے تمام معاشی ، افرادی قوت و وسائل کی دستیابی کا اہتمام کرے گا ، قومی تحریک کے لیے عوام دوست پالیسیوں کو طے کرے گا۔ سفارت کاری کے گہرے سمندر میں قومی تحریک کی کشتی کو navigate کرے گا ۔ عالمی میڈیا میں قومی تحریک کے فلسفے اور کیس کو پیش کرے گا ۔ قومی مفادات کو لیکر دنیا کے سامنے خاص کر ہمسایہ اقوام اور عالمی قوتوں کے ساتھ پارٹنرشپ کے بنیاد پر تحریک کیلئے سپورٹ حاصل کرنے کی کوشش کریگی۔

لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ گراؤنڈ ، گراؤنڈ کے نعرے کو بلند کرتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ پہاڑ پر بندوق کی گھن گرج سے تحریک کے وسائل اور دنیا کی سفارتی حمایت خودبخود حاصل ہوگا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے جتنی اہمیت عسکری جہد کی ہے اس سے دو گنا اہمیت سیاسی سفارت کاری کا ہے اور ان دونوں میدانوں کو ایک مضبوط سیاسی قیادت ہی رہنمائی فراہم کرسکتی ہیں ۔

 

حقیقت حال یہی ہے جس کی ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ نے خود اعتراف کرلیا ہے کہ کامیاب سفارت کاری نہ ہونے کی وجہ سے کامیابی حاصل نہیں ہو پا رہا ۔ ہمیں ماننا پڑے گا کہ جب تک تحریک کو ایک مشترکہ سیاسی قیادت میسر نہ ہو، گراونڈ پر موجود جہد کار یتیمی کی حالت میں جنگ لڑتے رہینگے جس سے خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکتے۔ صرف ایک مضبوط و منظم قومی قیادت ہی موثر سفارت کاری کے زریعئے سے گراؤنڈ کے وسائل کی دستیابی کا اہتمام کرسکتا ہے۔

کامیاب سفارت کاری نہ ہونے کے متعلق ڈاکٹر اللہ نظر بلوچ کی ٹویٹ صرف بیماری کی نشاندہی کر رہا ہے لیکن وہ بیماری کے اسباب ، تشخیص و علاج کے بارے بلکل خاموش ہے۔ ایک طرف ڈاکٹر صاحب بیرونی ممالک میں موجود دوستوں سے کامیاب سفارت کاری کا توقع رکھتے ہیں تو دوسری طرف وہ بھول جاتے ہیں کہ تحریک کو ایک مشترکہ قیادت کی ضرورت ہے، دنیا بکھری ہوئی تنظیموں کو گھاس تک نہیں ڈالتا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مشترکہ قومی سیاسی قیادت کس طرح تشکیل پائیگی؟ اگر ہمارے سیاسی رویے ریاستی تشکیل کے نعم البدل کے نیت کے طور پر ہوں تو تحریک میں موجود تمام اسٹیک ہولڈرز کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونے میں کوئی رکاوٹ مانع نہیں لیکن اگر سیاسی لٹیروں کا نیت یہی ہے کہ تحریک کی طوالت کے سبب دوسرے ختم ہونگے اور وہ اکیلا بچ جائینگے اور تحریک کا بے تاج بن بادشاہ جائینگے تو یہ ان کی ایک احمقانہ و مجرمانہ خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ہوگا.!

یہ بھی پڑھیں

فیچرز