چهارشنبه, نوومبر 27, 2024
Homeخبریںمشکے اور آواران میں ریاستی جبر اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔...

مشکے اور آواران میں ریاستی جبر اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے۔ سمی دین محمد

شال (ہمگام نیوز وی بی ایم پی کی جنرل سیکرٹری اور برسوں سے جبری گمشدگی کے شکار ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی دین محمد نے کہا ہے کہ بلوچستان میں جاری جنگ میں اس وقت جو سب سے زیادہ متاثرہ علاقے ہیں ان میں سے ایک مشکے اور آواران بھی ہیں مشکے کے علاقے تنک میں ایک مہینہ پہلے فوجی چوکی پر حملہ ہوا تھا اس حملے کے بعد وہاں کے جو مقامی لوگ ہیں تو سب سے زیادہ متاثر ہوئے اور وہ ایک اذیت ناک ذلالت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

وہ اپنی معمولی زندگی اور روزگار اور کمائی کو چھوڑنے پر مجبور ہیں جہاں صبح سویرے وہاں کے تمام مردوں کو جو ہے فوج اکٹھا کرتی ہے اور اپنی فوجی چوکیوں میں لے کر جاتی ہے جہاں پر ان سے غلاموں کی طرح مزدوری کا کام کروایا جاتا ہے جن میں سے وہ سڑکیں صاف کرتی ہیں وہ ان کے لیے جو ہے جنگلات کی کٹائی کا کام کرتی ہیں اور جب وہاں کی فوجیوں کو گشت پر نکلنا ہو یا گشت سے واپس اپنے چوکیوں تک جانا ہو تو اس دوران بھی وہ ان مردوں کو اپنے ساتھ لے کر جاتی ہیں یہ کہتے ہوئے کہ اگر ہمارے اوپر حملے ہوتے ہیں تو اس میں اپ لوگ بھی متاثر ہوں۔

سمی دین محمد نے اپنے جاری کردہ ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ گزشتہ ایک مہینے سے تنک کا علاقہ کرفیو میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں پر مقامی لوگوں کو نقل و حرکت کی اجازت نہیں ہے اور نہ وہاں پر ان کو اپنی کھیتوں پر جانے کی اجازت ہے۔

وہاں کی خواتین بھوک سے مر رہی ہیں وہاں کی عورتیں اور بچے بھوک سے مر رہے ہیں اس حملے کے بعد وہاں پر تین نوجوانوں کو جبری شدگی کا نشانہ بنایا گیا جن میں 2 اپریل کو سجاد اعظم اور ولی جان کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا اور بعد میں 26 اپریل کو حاصل محمد حسن کو فوج نے کیمپ بلایا گیا اور اس کے بعد جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا لیکن بعد میں یہی کہا گیا کہ حاصل ہمارے کیمپ میں موجود نہیں ہے۔

وہاں کے خواتین تین دنوں سے متواتر احتجاج پر بیٹھے ہوئے ہیں وہاں کے سنسان اور کچے راستوں پر وہ مارچ کر رہی ہیں وہاں پر نہ انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے نہ ہی موبائل نیٹورکس موجود ہیں اس کے باوجود وہاں پر احتجاج پر بیٹھے ہوئے یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ جو ریاستی جبر ہے جو ایک اجتماعی اذیت ہے اس میں ان سب کی آواز بنے اور ساتھ میں ان کے جو جبری طور پر گمشدہ افراد ہیں ان کی بازیابی کے لیئے آپ سب آواز اٹھا کر اپنا کردار ادا کریں دوران احتجاج ان خواتین کو ڈرایا گیا ہے وہاں کے ڈیتھ سکواڈ کے ہاتھوں ان کو دھمکایا گیا ہے اور بڑی مشکل کے بعد ان خواتین کی ویڈیوز ہم تک پہنچی ہیں اور ہم ا تمام لوگوں سے درخواست کرتے ہیں کہ ان خواتین کی ان بے بس ماؤں اور بہنوں کی اواز بنیں اور اس ریاستی جبر کے خلاف بلوچستان کے عوام کا ساتھ دیں۔

انہوں نے آخر میں انسانی حقوق کے لئے سرگرم کارکنوں اور دیگر افراد کا شکریہ ادا کیا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز