کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کی چیئرپرسن بی بی گل نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کے دوران بلوچستان میں ہونے والی کاروائیوں اور ان کے نتیجے میں میں ہونے والے نقصانات کی ماہانہ رپورٹ میڈیا کو جاری کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں پرتشدد واقعات بلا تعطل جاری ہیں۔ لوگوں کی اغواء اور مسخ شدہ لاشوں کی برآمدگی کا جو سلسلہ ایک دہائی قبل شروع ہوا تھا وہ اب بھی شدت کے ساتھ جاری ہے۔ پاکستانی آئین میں سیاسی حقوق کا واضح طور پر دفاع کیا گیا ہے لیکن بلوچستان میں لوگ اپنے اس آئینی حقوق سے محروم ہیں۔ سول انتظامیہ فوجی و نیم فوجی اداروں کے ڈر سے گمشدگیوں، مسخ شدہ لاشوں اور گھربار جلانے جیسے واقعات کی ایف آئی آر درج کرنے سے گریزاں ہیں۔ مجموعی طور پر بلوچستان کے لوگوں کو ایک ایسی صورت حال کا سامنا ہے کہ وہاں کے لوگ غیر یقینی کا شکار ہیں۔ طاقت کے استعمال نے لوگوں کو خوف زدہ کررکھا ہے۔ بی بی گل بلوچ نے کہا کہ مئی کے مہینے میں فورسز نے بلوچستان کے مختلف علاقوں سے 87افراد کو گرفتار کرلیا۔ بلوچستان میں جو لوگ ایف سی، فوج اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں اغواء ہوتے ہیں، انہیں نامعلوم مقام پر رکھا جاتا ہے۔ نہ خاندان والوں کو مغویوں سے ملاقات کی اجازت دی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں اپنی صفائی کا موقع دیا جاتا ہے۔زیر حراست لوگوں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ متعدد زیر حراست افراد کی لاشیں بھی برآمد ہوگئیں ہیں۔ اپریل کے آخر میں مکرا ن کے علاقے مند سے پانچ لاشیں برآمد ہوگئیں، جو کہ پہلے سے ہی فورسز کی تحویل میں تھے۔ پانچ سال قبل کراچی سے اغواء ہونے والے نعیم مری کی مسخ شدہ لاش مئی کے مہینے میں برآمد ہوگئی، اس کے علاوہ تمپ کے سماجی شخصیت دوست محمد کی مسخ شدہ لاش 26مئی کو برآمد ہوگئی، جسے تمپ سے کراچی جاتے ہوئے راستے میں ہی اغواء کیا گیا تھا۔ آئے روز کی قتل عام سے یہی لگتا ہے کہ بلوچستان میں قانون برائے نام رہ گئی ہے۔ ریاست عام لوگوں کو تحفظ دینے اور اپنے فرائض ادا کرنے میں ناکام ہورہی ہے۔ مئی کے مہینے کی مختلف واقعات میں کم از کم 66افراد قتل ہوگئے، ان میں سے 26افراد مستونگ دھماکے کے دوران ہلاک ہوئے، 21افراد کو فورسز نے قتل کردیا جن میں مسخ شدہ لاشیں بھی شامل ہیں۔ 6ناقابلِ شناخت لاشیں برآمد ہوگئیں اور 13افراد ذاتی دشمنیوں اور نامعلوم وجوہات کی بناء پر قتل ہوگئے۔اس مہینے 18افراد بازیاب بھی ہوگئے جن میں گزشتہ سال کی جولائی کو اغواء ہونے والے صبور ولد یعقوب، اسی سال کی اپریل کو اغواء ہونے والے طالبعلم حضور جان سمیت بسیمہ سے اغواء ہونے والے دس افراد شامل ہیں۔مغوی افراد میڈیا کے سامنے اپنے اغواء کے واقعات اور وہاں پر برتے جانے والے سلوک کا ذکر نہیں کرتے ہیں۔ لیکن خاندانی ذرائع کے مطابق دوران حراست ان کے پیاروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ حکومت کی بے حسی اور انسانی حقوق کے تنظیموں کی خاموشی کی وجہ سے بلوچستان کے لوگ انتہائی مشکلات کا شکار ہیں۔ گوادر سے متصل علاقہ دشت کی کم از کم 70فیصد آبادی اپنے گھروں سے نکل مکانی پر مجبور ہو چکی ہے۔ دشت میں لوگوں کو نکل مکانی پر مجبور کرنے کے لئے فورسز نے مئی کے مہینے میں متعدد گھر نظر آتش کردئیے، گھروں کو نظر آتش کرنے کی وجہ سے سینکڑوں خاندان کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ضلع آواران کی تحصیل مشکے میں فورسز کے حمایت یافتہ افراد کے ہاتھوں عام لوگوں کی کاروبار اور مال غیر محفوظ ہونے کے شکایات بلوچ ہیومین رائٹس آرگنائزیشن کو موصول ہوئے ہیں۔ اسی طرح بلوچستان کے دوسرے بیشتر اضلاع بھی شدید متاثر ہیں۔ گزشتہ تین دنوں سے مستونگ اور گرد نواح کے علاقوں میں بھی آپریشنز کی اطلاعات ہیں۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کاروائیوں میں عام لوگ متاثر ہوں گے۔بی بی گل بلوچ نے کہا کہ ان اعداد و شمار کو شائع کرنے کا مقصد صرف ایک ہی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ بلوچستان کے لوگوں کی انسانی حقوق متاثر نہ ہوں۔ عام لوگوں کی جان و مال کی حفاظت ریاست کی زمہ داری ہے، لیکن اگر ریاست کے ادارے ہی قتل عام اور اغوا پر اْتر آئیں تو عام لوگوں کا اعتماد ریاست پر سے اْٹھ جائے گا۔انہوں نے انسان دوست تنظیموں اور شخصیات سے اپیل کی کہ وہ بلوچستان میں سرکاری اداروں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی اور جاری آپریشنوں کی بندش کے لئے آواز اٹھائیں۔ کیوں کہ بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنے بجائے دوسرے ذرائع کا استعمال مزید انسانی جانوں کے ضیاع اور لوگوں کو گمشدہ کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔