کابل (ہمگام نیوز)مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق طالبان کے بانی رہنما ملا محمد عمر کی آٹھویں برسی کی آمد کے سلسلے میں تنظیم اور اس کے حامیوں نے ٹویٹر پر ایک کمپئن شروع کی ہے اس سلسلے میں ان کی جوانی کی ایک ایسی تصویر بھی شئر کی جارہی ہے جو کہ اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔
افغانستان کے ایک مقامی میڈیا سائیٹ ” طلوع نیوز ” پر شائع ہونے والے اس بیان میں مذکورہ کیمپئین کے متعلق ایک تفصیلی ریسرچ کی گئی ہے۔
اس سے پہلے ملا عمر کی صرف ایک ہی تصویر میڈیا پر شائع ہوتی رہی ہے جس میں ان کی ایک آنکھ اندھی نظر آتی ہے لیکن حالیہ تصویر میں جو کہ ان کے ایک آڈیو پیغام کے ساتھ شائع کی گئی ہے ملا عمر جوان ہیں اور ان کی دونوں آنکھیں سالم ہیں۔ یہ ملا عمر کی میڈیا پر جاری ہونے والی واضح ترین تصویر ہے۔۔
ملا عمر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ 2001 کے بعد کبھی افغانستان میں نہیں رہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ مذکورہ سوشل میڈیا مہم ملا عمر کی ہلاکت کی آٹھویں برسی کی آمد کے ساتھ ہی شروع کی گئی ہے۔اس حوالے سے ان کی زندگی پر ایک کتاب بھی شائع کی گئی ہے۔
طالبان کا کہنا ہے کہ یہ مہم ملا عمر کی موت کی آٹھویں برسی کی آمد کے ساتھ ہی ایک کتاب کی اشاعت کے ساتھ جو ان کی زندگی کے بارے میں ہے شروع کی گئی ہے۔520 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا نام ’عمرثالث‘رکھا گیا ہے۔
ملا عمر پاکستان میں سنہ 2011 کو وفات ہوئے تھے لیکن طالبان کی طرف سے ملا عمر کی موت کا باقاعدہ اعلان 23 اپریل 2013 کو کیا گیا تھا، حال ہی میں شائع کی گئی آڈیو سنہ 1996 کی ہے جب طالبان نے افغانستان کے مرکزی شہر کابل پر قبضہ کیا تھا۔
ملا عمر پاکستان میں سنہ 2011 کو وفات ہوئے تھے لیکن طالبان کی طرف سے ملا عمر کی موت کا باقاعدہ اعلان 23 اپریل 2013 کو کیا گیا تھا،
حال ہی میں شائع کی گئی آڈیو سنہ 1996 کی ہے جب طالبان نے افغانستان کے مرکزی شہر کابل پر قبضہ کیا تھا۔
طالبان کے حامیوں کے مطابق’20ویں صدی میں کوئی بھی رہنما ملا محمد عمر جتنا رازاور اسرار میں پوشیدہ نہیں تھا۔‘
ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ’ملا عمر نے 9/11 حملے کی مذمت کرتے ہوئے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔ انھوں نے اسامہ بن لادن کے ملوث ہونے سے متعلق ثبوت مانگے تھے اور اس کی جانچ کے لیے آزاد عدلیہ کا مطالبہ کیا تھا لیکن صدربش مشتعل تھے اور انھوں نے بغیر کسی توقف کے ’آپریشن جابریکر‘شروع کیا۔‘
اس حوالے سے مزید کہا گیا ہے’ ملا عمر 1959 کے آس پاس قندھار کے نواحی گاؤں نوڈیھ میں ایک غریب ، بے زمین کسانوں کے گھرانے میں پیدا ہوئے تھے جن کا پشتونوں کے ہوتک قبیلے کی غلزئی شاخ سے تعلق تھا جو کہ قبائلی لحاظ سے کمزور تھے ۔
ٹویٹر پوسٹ کے مطابق ، “ملا عمر چار بار زخمی ہوا تھا ،ایک بار حملے میں اس کی دائیں آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ ان کی تین بیویاں اور پانچ بچے تھے۔ چہرے پر داڑھی تھی اور کالی پگڑی باندھتے تھے۔ ان کا قد 6 فٹ 6 انچ تھا۔
طالبان کی ویب سائٹ کے مطابق ملا عمر کی پسندیدہ ہتھیار آر پی جی تھی۔