یکشنبه, اکتوبر 27, 2024
Homeآرٹیکلزمناظرے کی دعوت قومی یکجہتی کی طرف ایک اور کاوش، تحریر: داد...

مناظرے کی دعوت قومی یکجہتی کی طرف ایک اور کاوش، تحریر: داد شاہ بلوچ

جمہوری دنیا میں مناظرے کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے، چاہے مسائل کتنے ہی گھمبیر اور تلخ کیوں نہ ہوں مگر جمہوری معاشرے اسی مناظرے کے ذریعے ہی اپنے درمیان موجود مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوششیں کرتے ہیں، چاہے وہ عوامی سطح پر ہو، کسی اسمبلی ہال میں ہو یا پھر کسی تنظیم کے پلیٹ فارم کے زریعے اسی طرح کے مناظرے ہم روز دیکھتے ہیں جہاں ایک فریق کسی بات یا نقطہ نظر کی حامی ہوتی ہے دوسرا اس نقطہ نظر یا کسی بات، طریقہ کار اور سوچ یا نظریے سے اختلاف رکھتا ہے اور دونوں فریق آپس میں بیٹھ کر اس پر مناظرہ کرتے ہیں، دلیل دیتے ہیں اور دوسرے کی بات کو تحمل کے ساتھ سنتے ہیں، انکا مطمع نظر محض جیتنا نہیں ہوتا بلکہ مسائل کا بہتر حل نکالنا ہوتا ہے یا پھر مدلل بنیادوں پر بحث کرکے جیتنا ہی انکا مقصد ہوتا ہے تاکہ جیت کا اخلاقی جواز واضح ہو، اور آج کل کی سوشل میڈیا کی دنیا میں جہاں ہر کوئی اپنی بات بلا روک ٹوک کسی دوسرے تک پہنچا سکتا ہے وہاں ظاہر سی بات ہے کہ تعمیری تنقید یا مسائل کو سلجھانے کے لیئے کی جانے والی بحث و مباحثے اکثر و بیشتر منفی شکل اختیار کرجاتے ہیں کیونکہ ہر کوئی اپنی موبائل یا کمپیوٹر اسکرین کے سامنے بیٹھ کر کچھ بھی کہنے اور لکھنے میں کھلی طور پر آذاد ہوتا ہے، وہ غلیظ گالیاں بھی بکتا ہے، اخلاق سے عاری باتیں کرتا ہے تمسخر اڑا کر مضحکہ خیزی پر بھی اتر آتا ہے اور ذاتیات پر بھی کیچڑ اچھالتا ہے، اور یہ سب کرتے ہوئے اسے کوئی روک بھی نہیں سکتا، بھلے آپ اسے جانتے ہوں کہ کون ہے کہاں سے بیٹھ کر باتیں کرتا ہے اور کس کے حق اور کس کے خلاف ہے اسکے باوجود آپ اسے اسکے عمل سے روکنے سے سردست قاصر ہوتے ہیں، آج کل تو سوشل میڈیا میں نقلی اکاؤنٹس کی بھرمار ہے، کوئی سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اور کوئی اپنا درپردہ ایجنڈے کو سامنے لانے کے لیئے کسی انجان نام کے پیچھے چھپ کر یہ سب کرنا شروع کرتا ہے، ایسے میں یہ اور زیادہ دشوار ہوجاتا ہے کہ آپ کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ پردے کے پیچھے بیٹھا ہوا شخص حقیقی بنیادوں پر میرا مخالف یا حمایتی ہے یا اس بے نام مخالفت و حمایت کی آڑ میں کچھ اور مزموم مقاصد کی حصول کی نیت کارفرما ہے، اور سوشل میڈیا میں یہ مادر پدر آزادی ایک قسم کی انگیخت پیدا کرتا ہے کہ ” دیدو اسکو گالی کونسا یہ میرے سامنے بیٹھا ہے، جو ہاتھا پائی پہ اتر آئے گا، یا یہ کونسا ابھی کہ ابھی مجھے دلیل سے توڑ دے گا یا لاجواب کرکے جھوٹٓا ثٓبت کردے گا ” یا پھر کوئی اور اکاؤنٹ بنا کر اس میں سے اپنی زہنی گند و غبار کو کسی کے خلاف نکالنے کے لیئے سیاسی اخلاقیات کی حد سے بھی نیچھے اترجاؤ، یہ سب ہم نے 3 سال پہلے بہت ہی وسیع پیمانے پر تجربہ کیا ہے جہاں چھوٹے اور بے نام و نشان لوگوں کو چھوڑ بہت ہی بلند پایہ کے سیاسی کارکن اور رہنما سمجھے جانے والے کچھ لوگ اسی کیچڑ اچھال سرگرمیوں میں نمایاں طور پر سرگرم رہے ہیں، گالی کا جواب گالی نہیں ہے اگر مقصد مسائل کا سلجھاؤ ہو وگرنہ ایک گالی کے بدلے دو گالی دو اور آگے ایک طوفان بد تمیزی شروع ہوگی اور تحریک و جد و جہد سے جڑے سارے تعمیری و پیداواری کام رک جائیں گے، ناں عوام کو حقیقت حال کا پتہ چلے گا نہ ہی مسائل کا انبار کم ہوگا، تو یہاں مناظرے کی اہمیت یہ ہے کہ اس میں مخالف اور موافق دونوں فریقین آمنے سامنے ہونگے گوکہ بسا اوقات یہ آج کل میڈیا کی ترقی کے دور میں دور دراز کے علاقوں میں بیٹھ کر بھی کی جاتی ہے جیسے کہ ٹیلیویژن پر ہونے والے مباحثے و مناظرے، اس میں یہ ہے کہ دونوں فریق اپنی ،اپنی تیاری کے ساتھ آجاتے ہیں چونکہ مناظرے کا بنیادی مقصد اپنے موقف کودلیل و منطق کی بنیاد پر صحیح ثابت کرنا ہے، اگر آپ نے کسی پر الزام لگایا کہ یہ شخص چور ہے، تو اس میں ایک تو یہ کہ آپ اسکے خلاف قابل شواہد لے آؤ اور عوام کے سامنے یا عدالت میں ثابت کردو کہ وہ چور ہے، ایسے میں اس شخص کا انکار یا اسرار کوئی معنی نہیں رکھتا کیونکہ اس شخص کے خلاف آپکے پاس ناقابل تردید و ٹھوس شواہد موجود ہیں، اگر آپکے پاس مکمل شواہد موجود ہیں وہ لے آؤ سامنے اور بات ہی مکا دو، لیکن اگر آپکے پاس شواہد نہیں ہیں یا کسی بھی وجہ سے آپ وہ شواہد اس دعوے کے باوجود کے میرے پاس ہیں پیش نہیں کرنا چاہتے اور ملزم اگر الزام کی صحت سے انکار کرے تو پھر آپکا یہ اسرار کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ درست ہے اور ” وہ شخص چور ہے ” یہ کوئی منطقی و استدلالی بات نہ ہوگی بلکہ یہ انا پرستی و من مانی ہی مانی جائیگی، اور جو ثبوت یا سنی سنائی باتیں آپ پیش کرتے رہے ہیں اگر ان سطحی و بے بنیاد ثبوت و دلیلوں پر ہی مخالف فریق کو تحفظ ہو تو پھر مناظرہ یا آمنے سامنے کی گفت و شنید لازمی بن جاتی ہے اگر منشا و نیت مسائل سے چٹھکارہ پانے کا ہو تو، مناظرے کا اصل اور بنیادی مقصد اپنے موقف کو عوام کے سامنے لاکر اپنے موقف کے حق میں اور جو آپکے مخالف فریق ہیں انکے خلاف دلائل دے کر اپنی بات کو ثابت کرنا ہے یا پھر اپنے مخالف کی بات کی سچائی و حقیقت کو تسلیم کرکے اپنی غلطی یا سقم کا اقرار عوام کے سامنے کیا جائے، مناظرے میں کم از کم یہ ثابت ہوگا کہ ” وہ شخص چور ہے، یا پھر نہیں ہے ” یا ” جو الزام لگائے گئے تھے وہ صحیح تھے یا پھر صحیح نہیں تھے، چند لوگوں کے زہنی اختراع کے پیداوار تھے اور ذاتی عناد پر مبنی تھے” یا ” جو نظریہ، فکر، طریقہ کار یا سوچ پیش کیا گیا تھا وہ قابل عمل ہے یا پھر قابل عمل نہیں ہے “، مناظرے میں بات ہمیشہ دلیلوں پر منحصر ہوتی ہے، اس نے کہا، میں نے سنا اور میں نے مان لیا والی بات کو مناظرے میں قبول نہیں کیا جاتا، مناظرہ ایک قسم کی عدالت ہے وہاں جرح ہوتی ہے، یہاں دلائل دیئے جاتے ہیں، ایک دوسرے کی بات کو اطمینان سے سن کر اس کا جواب دیا جاتا ہے اور اس کے بعد ایک اور جواب اسی طرح منطق و دلائل کے بنیاد پر جواب در جواب اپنے اپنے دعوؤں کو ثابت کرنا پڑتا ہے، اور آخر میں جس کے پاس اپنی بات اور دعوے کا کوئی دلیل، منطق یا شواہد نہ ہوں اور وہ پیش نہ کرسکے تو اسکو ہارا ہوا فریق مانا جاتا ہے یعنی اس نے جو دعوے کیئے تھے وہ یکسر غلط تھے اور وہ اخلاقی حوالے سے اپنی شکست کو تسلیم کرلیتا ہے، مہذب اقوام میں استدلالی بنیادوں پر اپنے دعوے کے غلط ثابت ہونے کو شرمساری سے تعبیر نہیں کیا جاتا بلکہ ان میں اتنی ہمت ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کرلیں کہ ” ہاں میں غلط تھا “، لیکن ہم جیسے غلام اور ترقی سے محروم سماج میں اس طرح کی شکست کو کھلے بندوں تسلیم کرنا اپنی توہین سمجھا جاتا ہے اور جب بات بالکل ہاتھ سے نکل رہی ہو دلیل و منطق و ثبوت و شواہد کچھ بھی نہیں بن پارہا ہو تو پھر دو چار گالیاں نکال کر مباحثے ہی کو ختم کردو یا اسکی اخلاقی بنیادوں کو ہی ختم کردو، باضابطہ مناظروں میں گالی کا رواج نہیں ہے، ایسا کرنا یا کسی بھی طرح سے جذبات میں بہہ جانے کا عمل کسی بھی طرح کے مناظرے و مباحثے میں فرار سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

علم سیاسیات کے ماہرین کے مطابق مناظرے کی ایک بہت ہی اہم جز ” ایجنڈا سیٹنگ ” ہوتا ہے، کہ مناظرے میں شامل لوگ اپنے اپنے خیالات و اظہاریے میں کیا رجحانات رکھتے ہیں یہ ایک قسم کا فائدہ اور دوسری صورت میں نقصاندہ بھی ہے، فائدہ مند اس لیئے کہ اسی ایجنڈے سے لوگ سمجھ جاتے ہیں کہ آپکا انداز کیا ہے، سوچ کیا ہے اور اس سوچ و انداز میں ہمارے لیئے کیا نئی چیزیں ہے، اگر آپکے پاس اپنی دعوؤں کے حق میں مکمل دلیل ہیں اور آپ دلیل سے اپنی بات کو ثابت کرتے ہیں تو آپ مخالف فریق پر بھاری پڑجائیں گے اور نتیجتا جو لوگ اس مناظرے و مباحثے کو دیکھ یا سن رہے ہوتے ہیں ان پر اس مباحثے و مناظرے کے اثرات کا پڑنا لازمی امر ہے اور مابعد وہ دلیلوں سے اپنی بات ثابت کرنے والے فریق کو راست گو اور حق پر مانتے ہوئے اسکے ساتھ چلنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں، اگر یہی چیز ووٹ و الیکشن کے لیئے ہو تو عوامی تائید آپکی حق میں آجائیگی اور اسی طرح ووٹ لے کر آپ چناؤ جیت جائیں گے ( امریکی صدارتی انتخابات کے تناظر میں )، نقصان اسکے برعکس ہے، یعنی آپ کوئی ایسا ایجنڈا نہیں دے سکیں جو لوگ امید رکھتے ہیں ( اس مخصوص معاملے میں عوام سچائی تک پہنچنا چاہتی ہے کہ کون تحریک کے حوالے نقصاندہ ہے اور کون نہیں) اگر آپ اپنی کہی ہوئی باتوں کو ثابت نہ کرپائیں اور کوئی دلیل یا حوالے پیش نہ کرسکیں، مخالف فریق کی سوالوں یا مسلسل جوابی تکرار سے تنگ آکر جذبات میں بہہ جائیں اور کچھ اناپ شناپ بول دیں تو لوگ آپکو جھوٹا سمجھیں گے اور آپکی اس موقف کو دھوکہ دہی سے تعبیر کریں گے اور نتیجتا وہ آپ سے کنارہ کش ہوجائیں گے، آپ کے ساتھ سیاسی یا اخلاقی بنیادوں پر نہیں چل سکیں گے، دونوں صورتوں میں ہار جیت کا فیصلہ عوامی حمایت و مخالفت کی صورت میں ہوگی، کسی کو ووٹ نہ دینا حقیقت میں اسکی مخالفت ہی تو کرنا ہے۔ کسی کو ووٹ دے کر کامیاب بنانا اسکی عوامی پذیرائی و حمایت کا ثبوت ہے، اگر آپ یہ نہیں سمجھتے کہ میں عوام کے بغیر ہی سب کچھ ہوں تو پھر یہ ہار جیت اور جھوٹے سچے ثابت ہونے کا مناظرہ اہمیت رکھتا ہے، لیکن اگر آپ کسی شاطر و چال باز اور ظالم بادشاہ کی طرح یہ سمجھتے ہیں کہ عوام کی کوئی اہمیت نہیں میں جھوٹ بولوں کہ سچ بس میں ہی طاقتور ہوں اور میں ہی اس انسانی جنگل کا بادشاہ (ببر شیر) ہوں تو ایسے میں پھر مناظرے کا سوچنا ہی خام خیالی ہے، کیونکہ ایجنڈے کی بنیاد عوامی ہے اور اس ایجنڈے میں شامل باتیں یا وعدے عوام سے کیئے جاتے ہیں، کوئی بھی سیاسی لیڈر ہو وہ اپنی عوام کے سامنے سچا ہوتا ہے یا جھوٹا ہوتا، قابل اعتبار یا بالکل ہی ناقابل اعتبار بن جاتا ہے، سو پھر عوام کا اعتماد و اعتبار کا حصول لازم بن جاتا ہے کیونکہ کسی بھی رہنما کی مقبولیت کا پیمانہ عوامی حمایت پر منحصر ہے، اگر کسی کے پاس سرے سے کوئی ایجنڈا ہی نہیں کوئی پروگرام یا لائحہ عمل نہیں تو اس کے لیئے اس طرح کی مناظرے و مباحثے بے کار ہیں، وہ کبھی کسی بھی طرز کی آمنے سامنے کی استدلالی و منطقی مباحثے میں نہیں پڑنا چاہے گا، ایک مشہور معقولہ ہے کہ سچ کو یاد نہیں کرنا پڑتا کیونکہ وہ ایک اٹل سچائی کی حیثیت سے موجود ہوتا ہے اور جھوٹ کو ہمیشہ یاد رکھنا پڑتا ہے کیونکہ اسکی اپنی کوئی بنیاد نہیں ہوتا اور حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتا، سو کسی ایسے شخص کا جو کسی طرز کے کھلے مناظرے و مباحثے سے گریزاں ہو بس ایک ہی مطلب نکلتا ہے کہ وہ اپنی دعوؤں میں سچائیوں کی بنیاد کھڑا نہیں ہے، اور ایسے کسی بھی شخص سے یہ امید نہیں رکھنا کہ وہ مناظرہ کریگا اور اپنے کو جھوٹا ثابت کرنے کی خاطر آپ سے آکر الجھے گا کیونکہ ان کو معلوم ہے کہ میں نے جھوٹ بولا تھا اور میرے پاس دلیل نہیں ہیں، ایک فریق کا جھوٹ ہی دوسرے کا سچ ہوتا ہے، اور اسی فریق کے پاس منطق نہ ہونا ہی دوسرے فریق کی منطقی و استدلالی بنیادوں پر کھڑا ہونے کی دلیل ہے۔

سنگت حیربیار نے ایسے بہت سارے جراتمندانہ فیصلے کیئے ہیں جو کہ اپنے آپ میں بے نظیر ہیں، چاہے وہ قومی سطح پر اختلافات کی موجودگی کے حوالے سے قوم کو آگاہ رکھنا ہو، چاہے وہ چارٹر کی ترتیب و اشاعت ہو، چاہے وہ اتحاد کی دو نکاتی پیش کش ہو یا پھر ابھی اس مناظرے کی دعوت ہو، سنگت حیربیار شاید یہی سمجھتا ہے کہ اسکا دامن پاک ہے اس پر جو الزامات دھرے گئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں اور انکو یہ لوگ کبھی ثابت ہی نہ کرپائیں گے، سو جب وہ اتنی جرات کے ساتھ سامنے آ ہی گئے ہیں تو ہونا یہی چاہیئے کہ دوسرے فریق سے بھی لوگ لبیک کہہ کر آگے آئیں، انکو تو خوش ہونا چاہئیے کہ جو بات وہ کئی سالوں سے کہہ رہے اور ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں اب وہ خود چل کر انکو موقع فراہم کررہا ہے کہ آؤ بیٹھ کر اس پر بات کرتے ہیں، اب قوم فرعون بن کر موسی کو سامری یا جادوگری کی الزام کے مصداق حیربیار و اسکے دوستوں کو ساحر و جادوگر تو نہ ٹہرائیں کہ ان پر کوئی دلیل یا منطق اثر ہی نہیں کرتا یا انکے سامنے کوئی دلیل دو تو وہ تاویل ہی بن جائے، استدلالی بنیادوں پر ایک دوسرے فریق کے سامنے بیٹھ کر مناظرہ کرنے کا یہ فیصلہ نہایت ہی احسن فیصلہ ہے، یہ ایک ایسی کاوش ہے جو اس قومی تحریک میں جاری شکست و ریخت و انتشاری کیفیت کو ختم کرسکتی ہے، جہاں دو،تین، چار یا پانچ جتنے بھی فریق ہیں آپس میں بیٹھ کر اپنے ان تمام دعوؤں کی حقانیت پر بات کریں اور انکو ثابت کرنے کوشش کریں، جتنے الزام لگائے ہیں سنگت حیربیار پر چاہے وہ ملٹی نیشنل کارپوریٹ کی ایجنٹ کا معاملہ ہو، قومی دولت کو دشمن کے ہاتھوں فروخت کرنے کا دعوی ہو، اپنے بھائیوں کے زریعے دشمن سے ساز باز کا معاملہ ہو، قومی تحریک کو شکست و ریخت و انتشاری کیفیت میں ڈالنے کا الزام ہو، اپنی سرداری و قبائلی حیثیت کو دوام دینے کی بات ہو، یا قومی تحریک کے نام پر بیرون ملک کاروباری منافع خوری جیسے الزامات ہوں، یا سپریم کونسل کی طرف سے مجموعی اعتبار سے بیک جنبش قلم ” تحریک کے لیئے نقصاندہ ” ہونے کی بات ہو، آج موقع خود چل کر آپکے پاس آگیا ہے کہ جو آپ ایک عرصے سے کہہ رہے ہو میں اپنے آپ کو پیش کیئے دیتا ہوں عوام کی عدالت میں جہاں ہم دونوں بیٹھ کر دلیل و منطق کی بنیاد پر اپنی اپنی نقطہ نظر کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اگر ثابت نہ کرسکے تو کوئی بھی فریق ہو وہ قوم کا قصوروار ہے۔

محض الزام تراشیوں اور صرف پروپیگنڈوں سے ناں تحریک کا بھلا ہوگا اور نہ اس قوم کے بھاگ کھلیں گے، اگر قوم کو محض سبز باغ دکھانے کے برعکس حقیقی اتحاد و اتفاق کی طرف بڑھنا ہے تو یہ ایک نادر موقع ہے، اس میں تمام دعویدار تنظیموں کے زمہدار لوگوں کو سامنے آکر اپنی تنظیمی دعوؤں کی نمائندگی کرتے ہوئے انہیں سچ ثابت کرنے کی کوشش کرنی چاہئیے، وہ تمام زمہداران جو سمجھتے ہیں کہ اس جنگ آذادی کو ایک منطقی منزل ملنا چاہیئے تو اس منزل کا راستہ اتحاد و اتفاق کی پگڈنڈیوں سے ہوکر گزرتا ہے، صرف الزام در الزام ذاتی ضد و خنس اور انا کی تسکین کا شاید باعث بن سکیں لیکن اس طرح کے بغیر چھان بین اور بغیر ثابت کیئے الزامات دینے سے یہ تحریک مزید تاریکیوں کا شکار ہوتا رہے گا، ان تمام الزامات کو چاہے وہ کسی بھی طرف سے کسی بھی تنظیم کے زمہدار کے اوپر لگائے گئے ہوں ایک نہ ایک دن سچ ثابت ہوکر سامنے آنا ہے، ہم یہی امید رکھتے ہیں کہ تمام تنظیموں کے زمہداران اس بات پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اپنی تنظیموں و پارٹیوں کی طرف سے لگائے گئے الزامات کے حوالے سے دلیل و شواہد پیش کریں گے اور مناظرے و مباحثے سے نہیں بھاگیں گے، اگر خدانخواستہ مناظرے سے بھاگنے کی کوششیں ہوئیں یا اس پر سرد مہری دکھائی گئی تو اس کا مطلب ہے کہ یہ سب الزامات محض الزام برائے الزام کے علاوہ اور کوئی ٹھوس و حقیقی بنیاد نہیں رکھتے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز