تل ابیب (ہمگام نیوز) اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موساد کے موجودہ اور تمام چھ زندہ سابق سربراہان اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کے متنازعہ عدالتی بحالی کے منصوبے کی مخالفت کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق موساد کے ڈائریکٹر ڈیوڈ بارنیا نے پیر کے روز کہا کہ اگر حکومت غلط راستے پر چلی جاتی ہے تو ان کی ایجنسی تاریخ کے دائیں جانب نکل آئے گی –

یروشلم پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق موساد کے تمام چھ زندہ سابق سربراہوں نے یا تو واضح طور پر معقولیت کے معیار کی منسوخی کی مخالفت کی تھی یا کسی سمجھوتے پر پہنچنے کے لیے توقف کا مطالبہ کیا تھا۔

چھ میں سے پانچ نے نیتن یاہو پر قوم کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا الزام لگایا تھا جب کہ یوسی کوہن نے کہا تھا کہ بات چیت کے لیے مزید وقت دینے کے لیے ووٹ کو روکنا ضروری ہے۔

قبل ازیں پیر کے روز اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک سمجھوتے تک پہنچنے اور مہینوں سے جاری آئینی بحران کو حل کرنے کی آخری کوششوں کے باوجود نیتن یاہو کے عدالتی اصلاحات کے پہلے بل کی منظوری دے دی۔

اس بل کا مقصد سپریم کورٹ کے بعض حکومتی فیصلوں کو کالعدم قرار دینے کے اختیار کو محدود کرنا تھا۔ اس اختیار کو “غیر معقول” سمجھا جاتا ہے۔ یہ بل 0 کے مقابلے میں 64 ووٹوں سے متفقہ منظور کر لیا گیا۔ اپوزیشن کے ارکان پارلیمان نے احتجاج کرتے ہوئے سیشن چھوڑ دیا۔

اس متنازع بل کے خلاف مظاہرے صبح سے شروع ہوئے۔ پولیس نے پارلیمنٹ کے باہر زنجیروں میں جکڑے مظاہرین کو زبردستی ہٹا دیا۔ جوں جوں دن چڑھتا گیا مظاہروں کا دائرہ ملک کے مختلف شہروں تک پھیل گیا۔

یہ ترمیم حکومت کی جانب سے جنوری میں سامنے آنے والی وسیع تر عدالتی اصلاحات کا صرف ایک پہلو ہے۔ اس منصوبے کے خلاف وسیع پیمانے ملک گیر مظاہرے شروع ہوگئے۔ اس صورتحال پر اسرائیل میں جمہوری سالمیت بارے میں عالمی اتحادیوں نے بھی خدشات کا اظہار کیا ہے۔