واشنگٹن (ھمگام رپورٹ ) افغانستان، عراق اور اقوام متحدہ میں فرائض سرانجام دینے والے افغان نژاد سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد نے سوشل میڈیا میں ٹویٹر پر افغان خواتین کے تعلیم کے بارے مولوی عبدالحمید کے موقف کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے ’’میں مولوی عبدالحمید آج کے جمعہ کے دوران دی جانے والی خطبے کی تعریف کرتا ہوں جہاں انہوں نے خواتین اور بچیوں کی تعلیم کی بحالی اور شدید سرد موسم میں افغانستان کے لیے انسانی امداد کی وکالت کی‘‘۔ انہوں نے طالبان رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ مولوی عبدالحمید کے پیغام پر دھیان دیں۔
یاد رہے کہ برسرِ اقتدار آنے کے بعد جہاں افغانستان میں شرعی قوانین کو سخت کیا گیا ہے وہیں طالبان نے خواتین کے یونیورسٹی میں داخلہ لینے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ خلیل زاد نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ طالبان کی طرف سے خواتین کی یونیورسٹی میں حصول علم پر پابندی عائد کی گئی ہے لہذا اس فیصلے نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر پابندی کے سابقہ حکم کو مزید سخت کردیا ہے۔
افغانوں کی اکثریت اس کی مخالف ہے، اس لیے اس میں مقبولیت کا بھی فقدان ہے۔ یہ فیصلہ اہم طالبان رہنماؤں سے مشاورت کی بنیاد پر نہیں کیا گیا۔ اس طرح یہ اسلامی طرز حکمرانی کے ایک اہم اصول کی خلاف ورزی ہے۔
یہ ایک آمرانہ اور جاہلانہ فیصلہ ہے۔ اس سے افغان عوام کے مصائب میں اضافہ ہوگا اور ملک کی بین الاقوامی تنہائی میں اضافہ ہوگا۔ اگر وہ مخلص ہیں اور اپنے ملک کو ایک بہتر حالت میں لے جانا چاہتے ہیں تو انہیں مزید موثر اقدامات پر غور کرنا چاہیے۔ عالمی سطح پر معروف مسلم اسکالرز، جیسے مولوی عبدالحمید، نے واضح طور پر کہا ہے کہ یہ پابندی غیر اسلامی ہے اور اس میں مذہبی جواز نہیں ہے۔