یکشنبه, اکتوبر 20, 2024
Homeآرٹیکلز" مچھر " ایک غیر سیاسی افسانہ داد شاہ بلوچ

” مچھر ” ایک غیر سیاسی افسانہ داد شاہ بلوچ

” مچھر ”
ایک غیر سیاسی افسانہ

داد شاہ بلوچ

وہ اپنے کمرے میں کرسی پر بیٹھے لیوٹالسٹائی کی شہرہ آفاق کتاب ” جنگ اور امن ” پڑھنے میں مگن تھے کہ اچانک بجلی چلی گئی وہ ادھر ادھر ٹٹولتے ہوئے لالٹین کو جلانے میں کامیاب ہوگئے، اسے یاد تھا کہ کل رات جب بجلی چلی گئی تھی وہ ان جملوں کو پڑھ رہے تھے، “ایک منجھے ہوئے شطرنج کی کھلاڑی جب کوئی بازی ہار جائے تو اسے یقین ہوجاتا ہے کہ وہ کسی ایک غلطی کی وجہ سے ہار چکا ہے، اور وہ اس غلطی کو اپنی ابتدائی داؤ اور چال میں ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ بھول جاتا ہے کہ بازی کے ہر مرحلے میں وہ ایسی ہی غلطیاں کرچکا ہے اور اسکا کوئی بھی چال بے عیب و کامل نہیں رہا ہے، وہ صرف اسی غلطی کو دیکھتا ہے جس پر اس کی دھیان پڑی ہو، کیونکہ فریقِ مخالف نے اسی ایک غلطی سے فائدہ اٹھاکر اسے شکست سے دوچار کیا تھا، جنگ کی بازی اس سےکہیں زیادہ پیچیدہ ہے، وقت کی قید اور اس میں محض بے جان مہروں سے نہیں کھیلنا پڑتا بلکہ ہرچیز بے انتہا عقلی فیصلوں کے تابع ان گنت تصادم و کشمکش کی نتیجے میں سامنے آتی ہے” وہ اس کتاب کو پڑھتے ہوئے کئی ایسے نادم کرنے والے جملوں سے گزرچکے تھے، لیکن یہ جملے پڑھتے ہوئے اسے محسوس ہورہا تھا کہ جیسے وہ ٹھٹر سے گئے ہیں، اسے لگا کہ اس جملے کی عملی تصویر میں وہ خود کو دیکھ رہے ہیں، وہ اس تخیلے پر مسکرائے بغیر نہ رہ سکے کہ آجکل ہمارے ہاں جنگ کو کھیل میں تبدیل کیا گیا ہے اور شطرنج کے بساط پر حکمرانی کرتے کچھ لوگ عام سپاہی نما انسانوں کو بے جان مہروں سے زیادہ اہمیت دینے کو قطعا تیار نہیں ہیں،
انہوں نے کتاب کھولا اور جہاں سے ربط ٹوٹ گئی تھی پھر وہیں سے پڑھنا شروع کردیا، وہ اس بار بہت ہی جھنجلاہٹ کا شکار تھے اس لیئے نہیں کہ اسے کتاب پڑھنے میں لطف نہیں آرہا تھا بلکہ اس جھنجلاہٹ کی دو وجوہات تھیں ایک تو یہ کتاب بہت بڑی تھی اور تقریبا اسے ڈیڑھ ماہ سے اوپر ہونے کو تھا کہ وہ اس کتاب میں مگن تھے، ہر کہانی دوسری کہانی تک کھینچے لے جاتی تھی اور وہ اشتیاق سے پڑھتے پڑھتے جب تھک ہار کر کتاب کے ورق گردانی کرتے تو اسے ایک جھنجلاہٹ سی ہوجاتی کہ ابھی محض تین چوتھائی حصہ وہ پڑھ چکا ہے اور ایک حصہ اب بھی باقی ہے، وہ اسی اشتیاق کے ساتھ پڑھ رہے تھے اور کمرے میں لالٹین کی ناچتی ہوئی روشنی دیوار پر رقص کررہی تھیں، وہ ان ناچتی شعاعوں کو چاہتے ہوئے بھی نظرانداز نہیں کرپارہے تھے، اور اوپر سے مچھروں کی کانوں میں آکر بھن بھن کرنے کا عذاب الگ سے، وہ اس بات کے بہت ہی زیادہ قائل تھے کہ پڑھنے کے لیئے تنہائی نہیں تو کم سے کم خاموش اور یکسو ماحول کی اشد ضرورت ہوتی ہے، کیونکہ وہ محض کتابی سیاہیاں پڑھنے اور روانی کے ساتھ آگے بڑھنے کے قائل نہیں تھے، وہ یہی سمجھتے تھے کہ جو کتاب پڑھی جارہی ہے تنہائی یا کم از کم خاموشی اس کتابی منظرنامے کی تصوراتی تخلیق میں بہت زیادہ مددگار ہوتی ہے اور ایسے میں کتاب پڑھنے اور سمجھنے کا ایک الگ ہی زاویہ اور ذوق ہے، اسے اب لالٹین کی ناچتی لو میں پڑھنے میں اور زیادہ مشکلات پیش آرہے تھے۔
اس نے پیچھے مڑ کر دیوار پر ٹنگی ہوئی گھڑی کی طرف دیکھا،
تو اس وقت رات کے سوا بارہ بج رہے تھے، لائٹ کب آئیگی اس بارے میں اسے کوئی علم نہیں تھا، ابھی مچھروں سے اسکا مقابلہ جاری تھا، وہ ایک ایسے علاقے میں رہتے تھے جہاں بجلی جیسی بنیادی زندگی کی سہولت تعیش کا سامان سمجھی جاتی تھیں، ایسا بھی ہوتا تھا کہ کبھی کبھی چار پانچ گھنٹے بجلی مسلسل غائب رہتی تھی، اسنے ان سب سے تنگ آکر ایک دن بازار سے آتے ہوئے ایک لالٹین خرید لیا کہ جب بجلی نہیں ہوگی تو اسی سے پڑھ لیں گے، اسے پہلے کئی دفعہ اسے اس بات کا احساس ہوچلا تھا کہ جب بجلی نہیں ہوگی تو نیند تو خیر ویسے بھی نہیں آنی مگر پڑھنے کا وقت بھی بیکار جارہا ہے، پہلے تو اس نے کوشش کی جلدی سوجاؤں اور صبح جلدی اٹھ کر اور کچھ پڑھنے کے بعد کمرے سے نکل پڑوں مگر ہزارہا جتن کے بعد وہ اپنے اس کاوش میں سرخرو نہ ہوسکے، کیونکہ مچھروں نے قسم اٹھائی تھی کہ” نہ سوئیں گے نہ سونے دیں گے” ، سو اس نے اسکا یہی توڑ نکالا کہ ایک چارج ایبل لائیٹ خرید لی لیکن یہ منصوبہ اپنی ابتدائی شب میں ہی داغ مفارقت دے گئی کیونکہ بجلی حسب معمول و منشا گھنٹوں غائب رہی اور چارج ایبل لائٹ نے شب کے پہلے ہی پہر میں ساتھ چھوڑ دیا، سو اب وہ اپنا یار غار اور تاریکیوں کا ساتھی لالٹین ہی میں تلاش کرچکے تھے،
اس نے کتاب کے درمیان جہاں سے انہوں نے پڑھنا بند کردیا وہاں ایک فیتہ رکھ دیا، تاکہ پھر سے بھول نہ جائے کہ کہاں تک پڑھ چکا تھا، کالج کے زمانے میں اسکی ایک طالبہ دوست ہوا کرتی تھی جو اسے بھی نہیں معلوم کہ اب کہاں ہے اور کیا کرتی ہے ایک دن باتوں باتوں میں اس دوست نے ان سے پوچھا کہ “آپ کو غصہ آتا ہے”؟
تو اس نے کہ ” ہاں بھی اور نہیں بھی ” ہاں ” اس لیئے کہ میں انسان ہوں اور ” ناں ” اس لیئے کہ میرے میں غصے کو یا یوں کہوں اپنے آپ کو قابو کرنے کی جوہر ہے، خود پر غصہ آجاتا ہے کیونکہ اکثر بھول جاتا ہوں بہت ساری چیزوں کو”،
تو اس دوست نے اس سے پوچھا تھا کہ ” آخری بار کب غصہ کیا تھا”،
تو وہ کہنے لگے ” ابھی کل رات ہی کو، جب بجلی چلی گئی میں نے کتاب رکھا اور جو پڑھا تھا انہی کہانیوں کے بارے میں سوچنے لگا، اور پھر خاصی دیر کے بعد جب بجلی آئی تو بالکل بھول چکا تھا کہ کہاں سے پڑھنا بند کیا تھا، میں کتاب کی ورق گردانی کرتا رہا مگر اختتامی جملے تک پہنچنے میں ناکام رہا، سو اندازے سے درمیان میں کہیں پڑھنا شروع کیا تو 2 اوراق پڑھنے کے بعد پتہ چلا کہ کہاں سے ربط ٹوٹی تھی، وہ مسکرا رہے تھے، یہ چیز مجھے شاید سب سے زیادہ غصہ دلاتی ہے اور غنیمت یہ ہے کہ اس غصے کی وجہ بھی میں خود ہوں اور اسکا شکار بھی،
تو اسکے دوست نے اپنے کلائی پر بندھی ہوئی لال رنگ کی فیتہ کھول کر اسکے ہاتھ میں یہ کہتے ہوئے رکھ دی کہ اب کی بار جب بھی پڑھنا بند کردو تو یہ فیتہ اس جگہ پہ رکھ دو، آپکے غصے کا حل۔
اس نے پیچھے کی طرف مڑ کر ایک بار پھر گھڑی کو دیکھا،
اس وقت گھڑی میں ایک بجنے کو تین یا چار منٹ باقی تھے، وہ اب تھکاوٹ محسوس کررہاتھا اسے ایسا لگ رہا تھا کہ بستر پر لیٹتے ہی وہ نیند کی آغوش میں سما جائیں گے، مگر اسے معلوم تھا کہ یہ تھکاوٹ نہیں بلکہ کتاب پڑھنے کی زہن پر طاری ہونے والی غنودگی کے اثرات ہیں اور تھکاوٹ محض ایک دھوکہ ہے جو ایک آدھ بار اونگھنے اور جمائی لینے سے کافور ہوجائے گی،
اس نے لالٹین کی طرف دیکھا اب دھیرے دھیرے اسکی روشنی کمرے میں پھیلتی جارہی تھی لیکن دیوار پر محو رقص لالٹین کی لپکتی ہوئی روشنی اسی طرح بل کھاتی جارہی تھی، اور لالٹین کے روشنی کے اردگرد مچھروں کی بھنبناہٹ سی تھی، اسے یکا یک خیال آیا کہ آج پھر وہ بازار سے مچھر کش دوائی لانا بھول گیا ہے، اس کو کل رات ہمیشہ کی طرح مچھروں نے بہت ستایا تھا اور مجبور ہوکر اس نے کتاب کی بمشکل دس بارہ اوراق پڑھے اور لالٹین سے کہیں پرے جاکر کمرے کے کونے میں بیٹھ گئے، آج بھی انہی مچھروں کی پریشان کرنے کی وجہ سے وہ کتاب میز پر دھر کے نیچے دیوارسے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے تھے، اسے خیال تھا کہ کل وہ جب کتاب بند کرکے لالٹین سے دور جاکر بیٹھے تو اسے ایک طرح سے احساس ندامت نے گھیر لیا، ان کو ایسا لگ رہا تھا کہ ” وہ مچھروں سے ہار کر اپنا مورچہ چھوڑ کر بھاگتے ہوئے کمرے کے ایک کونے میں چھپ چکے ہیں ” آج بھی وہ اسی ندامت کی سی احساس کے کشکمش میں سوچ رہے تھے کہ ایک ادنی اور حقیرسا مچھر بھی ایک بڑے جسامت اور عقل سلیم رکھنے والے انسان کو پریشان کرسکتا ہے اسے مجبور کرسکتا ہے کہ جو وہ کررہاہے اور جس کام میں مشغول ہے اس کام کو چھوڑ کر مچھر سے نبرد آزما ہو، چاہے وہ کتنا ہی اہم اور بڑا کام کیوں نہ ہوں لیکن ایک مچھر کی کانوں میں آکر بھنبناہٹ کرنا انسان کو مجبور کرتا ہے کہ وہ ان تمام مشاغل کو چھوڑ کر اس مچھر سے ایک نہ ختم ہونے والا معرکہ لڑے، وہ اپنے آپ کو کھوس رہے تھے کہ آج صبح میں جب بازارکو نکل رہا تھا تو کتابوں کے ساتھ ساتھ ان مچھروں کے بھگانے کا سامان بھی لانے والا تھا مگر بھول گیا، اس بھولپن کی عادت سے وہ کافی اکتا چکے تھے، لیکن کتابیں خریدنے کا تو میں نہیں بھولا تھا، اسے لگ رہا تھا کہ جس چیز کا سب سے زیادہ تجسس یا شوق دامن گیر ہوجائے تو اس شئے کو بھول جانا انسان کے لیئے محال رہتا ہے، اسکا اب یہ ایک طرح سے عادت بن چکا تھا، صبح اٹھتے، کمرے کے عقب میں واقع ڈھابے نما ہوٹل سے ناشتہ کرتے، اور پھر کتابوں سے لدے ہوئے ریڑیوں پر کتابیں چھانٹتے اور کچھ خریداری کرکے اپنی یونیورسٹی کے لیئے نکل جاتے اور شام کو واپس کمرے میں آ گھستے، اسے یاد تھا کہ اس نے شاید ڈھائی سال پہلے اپنے آپ سے یہ وعدہ لیا تھا کہ اب وہ مزید کتابیں نہیں خریدے گا، جو پہلے سے پڑے ہوئے ہیں پہلے پہل تواسی اسٹاک کو ٹھکانے لگا لوں تو پھر کچھ نئی خریداری کرلوں، اسے یاد ہے جب اس رات وہ کتابوں سے اٹی پڑی، بے ہنگم اور منتشر کمرے کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرچکے تھے کہ وہ اب مزید کتابیں نہیں خریدیں گے تو اس کے بالکل اگلی صبح اس نے رستے میں ایک اسٹال نما ریڑی پر پڑی ہوئی ” ریز اینڈ فال آف دی گریٹ نیشنز” محض 20 روپے میں خریدی تھی، اس دن اسے طمانیت و پشیمانی دونوں کیفیتوں نے بیک وقت گھیر لیا تھا، وہ پشیمان تھے کہ اسکا یہ ” کتابی حرص ” کبھی ختم ہونے کو نہیں آئیگا اور وہ خوش تھے کہ اس کو ایک اہم کتاب، جسے وہ کب سے اپنی جیب کی مجبوریوں کے سبب حقیقی قیمت ادا کرخریدنے سے قاصر تھے، محض 20 روپے میں مل گئی تھی، وہ اپنی اس فتحیابی سے خاصی سرشار تھے،
آہستہ آہستہ اب وہ اس حقیقت کو تسلیم کررہے تھے کہ میں نے ڈھائی سال پہلے جو ناکام فیصلہ کیا تھا وہ فیصلہ بہت حد تک صحیح تھا کیوں کہ اب وہ اپنے کمرے میں جگہ جگہ اس کتابی انتشار سے تنگ آچکے تھے، اس نے عقبی دیوار کی طرف دیکھا جس پر اوپر سے نیچے ایک کباٹ بنا ہوا تھا جو کتابوں سے برابر لدا پھندا ہوا تھا، اس کے اندر لگے تختے بھی بھاری بھرکم اور حد سے زیادہ کتابوں کی بوجھ سے نیچے کو سرک رہے تھے،
اس نے کمرے کو چاروں طرف ایک طائرانہ نگاہ بھر کر دیکھ لیا، لالٹین کی مدھم ہوتی ہوئی روشنی میں چادر تلے پڑے ہوئے چار کتابوں کی گھٹڑیاں تھیں اس چھوٹے سے کمرے میں، ایک گھٹڑی میں خدا جانے کتنی کتابیں اور ان میں وہ کتنا پڑھ چکا اور کتنے ابھی پڑھنے کو باقی تھے، وہ سوچ رہا تھا کہ ایک دن کتابوں کو چھانٹی کرکے جو پڑھ چکے وہ ایک طرف کرلوں اور جو ابھی تک پڑھنے ہیں وہ ایک جانب رکھ دوں، یعنی دیوار کے ساتھ دو قطار بناکر دو جگہ کتابوں کوجمع کردوں تاکہ کمرے میں کم از کم دو انسانوں کی آرام کے ساتھ بیٹھنے کی جگہ بن سکے، لیکن یہ سوچ کراسکے پیشانی پر پریشانی کے آثار نمودار ہونے شروع ہوئے، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ کمرے کو سیٹ کرنے اور کتابوں کو ٹھکانے لگانے واسطے ایک پورے دن کی ضرورت پڑتی ہے اور یہ دن اتوار کے علاوہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ باقی دنوں میں تو اپنی یونیورسٹی میں مصروف رہتے ہیں، اور اس نے پہلے سے سوچ رکھا تھا کہ وہ اس اتوار کو پورے دن کمرے سے نکلے بغیر صرف بیٹھ کر پڑھیں گے اور اس 2 مہینے سے جاری جنگ اور امن کی کہانی کو اختتام تک لائیں گے، اس کتاب کے متعلق اسکی جھنجلاہٹ کی دوسری وجہ یہی تھی کہ اس نے پچھلے ہفتے ایک ریڑی بان سے ” سبستین فولک ” کی کتاب ” برڈ سونگ ” خریدی تھی، کتاب کے بیک کور پہ ایک تعارفی اظہاریے میں یہ لکھا ہوا تھا کہ یہ کتاب جنگ اور محبت کے حسین امتزاج کے بارے میں بات کرتا ہے، یہ ایک بریٹشر کی کہانی ہے جو 1910 میں ٹیکسٹائل بزنس سیکھنے فرانس جاتا ہے اوروہاں اپنے میزبان کے بیوی سے اسکا معاشقہ شروع ہوجاتا ہے، اور پھر وہ واپس اپنے گھر کو لوٹ جاتا ہے مگر جب جنگ شروع ہوجاتی ہے تو وہ ایک سپاہی کی حیثیت سے واپس فرانس جاتا ہے اور یوں یہ کہانی جنگ اور محبت کی ایک امتزاج بن جاتی ہے، وہ اس کتاب کو پڑھنے کے لیئے کافی متجسس تھے، چلو اس اتوار کو پھر یہ جنگ اور امن کا قصہ یونہی چلتے رہنے کا امکان ہے سو بہتر ہے کہ اس کمرے کی صفائی پر کچھ دھیان دوں، شاید مچھروں کی بے وقت کی راگنی سے کچھ سکون میسر آجائے، اسے اس آفاقی حقیقت کا ادراک تھا کی ان مچھروں کی بھنبناہٹ کی ایک وجہ اسکے اپنے گھر میں پھیلی انتشار و سراسیمگی تھی، اگر اپنا گھر سنور جائے تو مچھر اپنی ہی موت مرجائیں گے، وہ مچھروں کی اس بلاواسطہ سزائے موت کی امکان پہ مسکرا رہے تھے،
ایک مچھر اسکے کان کے قریب آکر بھنبنانے لگا، اس نے ہاتھ سے کئی دفعہ مچھر کو خود سے دور بھگانے کی کوشش کی لیکن وہ بہت ہی لاچار تھا وہ سوچ رہا تھا کہ میں کتنا ہاتھ پیر چلاؤں یہ مچھر اسی طرح بھنبناتا رہے گا اور مزے کی بات یہ ہے کہ مجھے نظر بھی نہیں آرہا بس کانوں میں اسکی بھنبناہٹ کی آواز سی آرہی ہے وہ دل ہی دل میں یہ سوچ رہے تھے کہ اصل میں مچھروں کو اس طرح انسانوں کو پریشان کرنے کی قدرتی کرشمہ حاصل ہے آپ چاہیں جتنی جتن کرلیں وہ آپکو پریشان کرکے ہی چھوڑیں گے، کیوں کہ مچھر اس کام یدِ طولی رکھتے ہیں اور یہی انکی پیدائشی و جبلتی خاصیت ہے، اسی لیئے انسان مجبور ہوجاتا ہے کہ اپنے گھر میں “سول وار” شروع کردے، اور مچھروں کی بے رحمانہ نسل کشی پر آمادہ ہوجائے، وہ سوچ رہا تھا کہ جس طرح کتاب پڑھتے ہوئے ان مچھروں نے میرے ناک میں دم کیا ہے ظاہر سی بات ہے کہ اس کتاب کے لکھنے والے کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا، وہ کتاب لکھتے وقت اسی طرح مچھروں سے لڑتے رہے ہیں،
یوں کہیئے کہ یہ لڑائی نسل در نسل چلتی چلی آرہی ہے، اور آج تک مچھر کو یہ احساس نہیں ہوا کہ کتابیں لکھنے والے اور ان کتابوں کو پڑھ کر دنیا تک پہنچانے والے لوگ کتنے عظیم ہوتے ہیں اور یہ کتنی عظمت کا کام ہے، اسکا خیال تھا کہ مچھروں کو اس بارے میں اپنی کم ظرفی کی خصلت و اطوار پر نظرثانی کرنی چاہیئے کہ کیوں اس طرح ہم ان لوگوں کو پریشان کررہے ہیں، لیکن پھر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اوروہ خود سے کہنے لگا کہ مچھر بھی کیا کرے بیچارہ اسکی سرشت میں اور جبلت میں یہی شامل ہے اور وہ نسلوں سے یہی تو کرتا ہوا آرہا ہے،
ویسے اس لائبریری نما کمرے میں اس نے کم و بیش نصف سے زیادہ کتابیں پڑھی تھیں کچھ ایسی بھی کتابیں تھیں جو انہوں نے ایک سے زائد بار بھی پڑھی ہونگی، یعنی یوں کہیئے کہ مچھروں سے لڑتے ہوئے انہوں نے یہ نصف سے زائد کتابیں ہضم کرلی تھی ، اور اسی طرح مچھروں کے ساتھ ان کا یہ آنکھ مچولی تسلسل کے ساتھ جاری رہی ہے،
مچھر اور کیا کرسکتا ہے بس دھیان بانٹنا ہے،
وہ مچھروں کی اس غیر مناسب رویے پر سوچوں کی سمندر میں غرقاب تھا، اور بجلی ابھی تک غائب تھی،
یعنی جو کام آپ اپنی مقصد کو پانے کے لیئے دنیا و مافیہا سے بے خبر مکمل دھیان لگا کر رہے ہیں اگر اس وقت کوئی بہت ہی عجلت کا کام بھی پڑھ جائے تو شاید آپ اس کام کو در گزر کردیں مگر مچھر جیسے آکر آپکے کان میں اپنی نغمہ سنجی شروع کرتا ہے تو آپکی دھیان اور ہمہ تن گوش مصروفیت میں رخنہ آجاتا ہے اور آپ کا دھیان مچھر اور کام دونوں میں بٹ جاتا ہے، اور کام کا سلسلہ اسی بنیاد پر طوالت اختیار کرجاتا ہے، وہ سوچ رہا تھا کہ ایسے میں جو کام منٹوں میں ہونا ہو وہ گھنٹوں میں چلا جاتا ہے اور جو گھنٹوں کا ہو وہ دنوں پر پھیل جاتا ہے اور دن ہفتوں میں ڈھل جاتے ہیں، بسا اوقات تو بہت سارے کام اور مقصد انہی مچھروں کی دخل اندازی جرم کے سبب آدھے ادھورے چھوڑ دیئے جاتے ہیں، اور تاریخ ان کو ناکامی سے تعبیر کرتی ہے اور مچھروں کا کوئی بھی ذکر نہیں ہوتا، وہ اس بات سے متعسف تھے کہ چاہے ہزارہا کام اور مقاصد بے نتیجہ رہ جائیں مگر یہ مچھر اپنی کم ظرفی سے باز نہیں آتے،
اس کو گمان گزرنے لگا کہ اگر یہ مچھر نہ ہوتے یا میں خود کاہلی نہ کرتا اور مچھر کش اسپرے یا دوائی کہیں بہت پہلے لے آتا یعنی سول وار اور بے رحم نسل کشی کی ابتدا کرتا تو شاید آج میں لیوٹالسٹائی کی ” جنگ اور امن ” کی جگہ ” سبستین فولک ” کی ” برڈ سونگ ” کو ختم کرکے کوئی اور کتاب پڑھ رہا ہوتا، وہ سوچ رہا تھا کہ کسی بھی مسافت کی لمبائی میں ایک بہت ہی بڑا کردار انہی دھیان بانٹنے والے مچھروں کی کم ظرف و انتشاری خصلت کا ہے، لیکن اکیلے مچھروں کا قصور نہیں بلکہ اس میں بہت کچھ میری اپنی کاہلی سستی یا غلط فیصلوں کی وجہ سے بھی ہے جو مچھر اس طرح لاڈلے ہو چلے ہیں،
مچھر تو خیر اپنی سرشت و جبلت کے ہاتھوں یرغمال ہے، وہ جب تک خون نہ چوسے اور انسان کی دھیان کو نہ بانٹے تو سمجھے کہ اسکی مقصد حیات کا حاصل وصول کچھ نہیں،
وہ سوچتا تھا کہ جس طرح ایک کتاب ختم کرکے ایک سرشاری کی کیفیت مجھ میں در آتی ہے جیسے میں نے اپنی مقصد کا ایک اہم نقطہ پالیا ہے بالکل اسی طرح یہ مچھر بھی ہیں، جب وہ آپکی دھیان بانٹنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو انکی خوشی کی کیفیت دیدنی ہوتی ہے، وہ مچھر بھی یقینا سوچتا ہوگا کہ
” دیکھو کتنا مگن ہوکر کام کررہاتھا، کس طرح کتاب میں غرق ہوکر پڑھ رہا تھا، کیسے بے لوث و بلا غرض اپنی مقصد پہ لگا ہوا تھا، بانٹ دیا اسکی دھیان، دیکھو دیکھو اب وہ ہاتھ ہلا ہلا کر ہمیں بھگانے کی کوشش کررہا ہے، یعنی اب ہم مقابلے میں آگئے ہیں، وہ دیکھو اب وہ بڑآ انسان ہم سے مقابلہ کررہا ہے، ہم پر جوابی وار کررہا ہے”،
وہ سوچ رہا تھا کہ یہ حقیر مچھر اپنی اس حرکت اور اس حرکت کے رد عمل میں انسان کے دھیان کے بٹ جانے کو بھی اپنی کامیابی سے تعبیر کرتا ہے، اور وہ اپنے آپ کومد مقابل سمجھنے لگتا ہے،
ویسے کچھ مچھر نما انسان بھی ہیں جو ہمیشہ آپکی زندگی میں کچھ بہتر یا خوبصورت پہلو بڑھانے کے بجائے آپکا وقت ہی ضائع کرتے ہیں، ان کے پاس کچھ نہیں ہوتا اور آپکے پاس جو کچھ تھوڑٓا بہت ہوتا ہے وہ اسے بھی نکما بنا کر چھوڑنے کی بھرپور سعی کرتے ہیں، انکے کلاس فیلوز کی ان کے ہاں ہمیشہ کچھ الگ الگ اقسام ہوتے تھے اور وہ ان کی الگ سے درجہ بندی کرتے تھے،
کچھ ایسے تھے جو وہ سمجھتے تھے کہ خون چوستے ہیں، یہ اقسام جب بھی اسکے ہاں آکر بیٹھ جاتی اسے ایک الگ قسم کی بے چینی سے ہوجاتی اور وہ عجلت میں وہاں سے کھسک جاتے وہ سجھتے تھے کہ یہ لوگ کچھ کرتے نہیں اور آپ کو بھی ڈھنگ کا کچھ نہیں کرنے دیتے،
ایک اقسام وہ ہوتا تھا جو ان کے خیال میں دماغ کھاتے تھے اپنی بے مقصد باتوں، بے ربط سوالوں اور بے وقت کی راگنی سے، وہ ان سے بحث تو کرتے مگر قصہ مختصر کرکے نکل جاتے،
اور تیسری اقسام وہ تھے جو ان کے خیال میں صرف اور صرف انسان کی دھیان بانٹنے کے لیئے پیدا ہوئے ہیں، اگر آپ کچھ ڈھنگ کا کام کررہے ہیں تو وہ اپنا ٹانگ اڑا دیتے ہیں، آپکو آکر مشورہ دیتے کہ یہ نہیں یہ کرلو، میری بات مان لو میں ٹھیک کہہ رہا ہوں آپ غلط کررہے ہو، اور اگر آپ ان کو انکی بات میں موجود غلطیوں اور سقم کا نشاندہی کرتے ہیں تو وہ پیچھے پڑجاتے ہے ،
وہ ہمیشہ سوچتے تھے کہ ڈارون کا نسلِ انسانی کی ارتقائی عمل کی بنیاد ” بندر ” سے ہوئی ہوگی لیکن ڈارون کے تھیوری میں یہ سقم بہرحال موجود ہے کہ انہوں نے ان لوگوں کے بارے میں تردد سے کام لیا اور نہیں بتایا کہ بنی نوع انسان میں سے کچھ لوگوں کی نسلی ارتقاء بندر سے نہیں بلکہ ” مچھر ” سے ہوئی ہے، اور یہی وہ مچھر نما انسان ہیں جو دکھنے میں انسان اوراپنی حرکتوں کے طفیل مچھر ہیں،
دنیا میں کتنے مقاصد اور ان مقاصد کے پیچھے اخلاص سے لگے ہوئے کتنے لوگ ناکامی کا تصویر محض انہی مچھر نما انسانوں کی وجہ سے ہوئے ہیں اور تاریخ کا جبر دیکھیئے کہ ان مچھروں کا ذکر کوئی نہیں کرتا بس ناکامیوں کا ذکر ہوتا ہے، جو مقصد اور فکر و نظریے سے ہٹ کر بس ہمیشہ دوسرے بامقصد اور مخلص لوگوں کی دھیان بانٹتے تھے، ان کو پریشان کرتے تھے، انکے راہ میں روڑے اٹکاتے تھے، جو کام سالوں میں ہوجانا تھا وہ صدیوں پر پھیل گیا، اور ان تمام چیزوں کو وہ اپنی کامیابی تصور کرتے انکی بھانچیں کھل جاتی ہیں،
وہ اس حقیقت سے پریشان تھے کہ اگر ایک مچھر انسان کو پریشان کر سکتا ہے اسکی دھیان کو بانٹ سکتا ہے توڈارون کی ارتقائی تھیوری میں جگہ نہ پانے والی ” مچھر نما انسان ” کیا کچھ نہیں کرسکتا، ٹانگ کھینچ کر کسی کو نیچے لانے کا ہر گز مقصد یہ نہیں ہوسکتا کہ “وہ اور تم” اب برابر ہوگئے ہو، یا پھر اپنا تقابل اس کے ساتھ محض اس بنیاد پر کرو کہ ” مجھ میں طاقت ہے اسی لیئے تو انکو پریشان کیا ہے “، پھر گھوم پھر کر بات وہیں آجانی ہے کہ مچھر محض اس لیئے انسانی نسل کی برابری نہیں کرسکتا کہ وہ انسان کو لمحے بھر کے لیئے پریشان کرسکتا ہے، اگر عظمت کی بلندیوں کو پانا ہے تو انسانوں جیسی کچھ کام کرو مچھروں جیسی حرکتوں کرتے یہ مچھر نما انسان اور کچھ نہیں کرسکتے بس ” انسانوں ” کو انکے کام اور مقصد میں پریشان ہی کرسکتے ہیں،
وہ بستر پر دراز ہوکر سونے کی لاحاصل کوششوں میں مگن تھا، بجلی شاید لمبی رخصت پہ چلی گئی تھی جو اب تک لوٹ کر آئی نہیں تھی سو اس نے سوچا کہ سوجاؤں کل صبح صبح اسکی ” ہسٹری ” کی کلاس تھی وہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں ہسٹری میں پی ایچ ڈی بھی کرلوں لیکن مجھے یقین ہے کہ اس میں مچھر کا ذکر کبھی نہیں ہوگا، کیونکہ مچھروں کا کام تاریخ میں جگہ بنانا نہیں بلکہ تاریخ میں جگہ پانے کی کوششوں میں مصروف انسانوں کے کام میں دخل اندازی و انکا دھیان بانٹنا ہے، لیکن اب وہ مصم ارادہ کرچکے تھے کہ ” بس بہت ہوگیا ” کل ان مچھروں سے بہرحال نمٹنا ہے، یہ مچھر اور کچھ نہیں کرتے اور میں جو کررہا ہوں بس آکر میرا دھیان بانٹتے ہیں اور کانوں میں دھمال ڈالتے ہیں جیسے میرے کان نہیں کسی برگزیدہ پیر فقیر کا مزار ہو۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز