دوشنبه, سپتمبر 30, 2024
Homeخبریںمیرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 13 سال...

میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی جبری گمشدگی کو 13 سال مکمل ہو چکے ہیں۔سمی دین بلوچ

 

کراچی ( ہمگام نیوز) جبری گمشدگی کا مسئلہ بلوچستان سمیت پاکستان بھر انتہائی سنگین صورتحال اختیار کر چکے ہیں، جہاں لاپتہ افراد کی فہرست میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہورہا ہے –

میرے والد ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی گمشدگی کو آج بتاريخ 28 جون 13 سال مکمل ہو چکے ہیں، ڈاکٹر دین محمد بلوچ کو بلوچستان کے علاقے اور ناچ خضدار میں سرکاری ڈیوٹی کے دوران سادہ کپڑوں میں ملبوس خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے غیر قانونی حراست میں لے کر جبری لاپتہ کردیا اور آج تیرہ سال گزرنے کے بعد بھی میرے والد کی کوئی خبر نہیں آئی ۔ ہم نے اس
ملک کے ایک شہری ہونے کی حیثیت سے کوئی ایسا درواز نہیں چھوڑا جہاں سے ہمارے والد کی بازیابی کیلئے کوئی امید نظر آتی تھی ۔ ان تیرہ سالوں میں جبری لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے بناۓ گئے کمیشن کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں ، عدالتوں کے چکر کاٹے سپریم کورٹ ہائی کورٹ کمیٹیوں کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں، میڈیا ہاؤسز کے زریعے مقدمہ لڑتے رہے ہیں، مگر ان تیرہ سالوں میں ہمیں دلاسے تسلیاں اور اور جھوٹے وعدوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔

ہم اس ملک کے ایک پرامن شہری ہیں ہم گزشتہ تیرہ سالوں سے صبر کا دامن پکڑے پر امن احتجاج اور ملک کے عدلیہ اور دیگر اداروں کے سامنے پیش ہوتے رہے ہیں ۔ میں ملک کے حکمرانوں سے پوچھتی ہوں کہ کیا وہ ہمارے بنیادی شہری حقوق ، پرامن زندگی کے گزارنے کے حقوق ، زندہ رہنے کے حق ہم سے چھیننا کا اختیار رکھتے ہیں؟
کیا میرے ابو کو بطور اس ریاست کے ایک شہری پر امن جینے اور رہنے کا حق حاصل نہیں؟ کیا کسی شہری کی تحفظ کو یقینی بنانا ریاست کی زمہ داری نہیں ہے؟
میں ایک مرتبہ پھر حکمران جماعت اپوزیشن پارٹیوں اور ملکی اداروں سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے والد کو بازیاب کرانے میں کردار ادا کریں اور ہمیں سکون سے زندگی جینے کاحق دیں،
بحیثیت اس ملک کے شہری مجھے سے اور میرے گھر والوں سے یا پاکستان کے کسی بھی شہری سے یہ جینے کا حق نہیں چھینا جا سکتا، ہم اس ملک کے قانون و آئین کا احترام کرتے ہیں تو اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ پاکستان کے آئین اور قانون کے مطابق ہمارے جائز مطالبات پرعمل درآمد کریں، میں
ڈاکٹر دین محمد بلوچ سمیت پاکستان بھر سے جبری لاپتہ افراد کو بازیاب کر کے اس جبری گمشدگیوں کے سلسلے کو بند کیا جائے۔ ایک فرد کے جبری لاپتہ ہونے سے اس کا پورا فیملی شدید کرب اور اذیت سے گزرتا ہے، اور جبری لاپتہ کرنے والے ایک فرد کو لاپتہ کرنے سے اسکے پورے خاندان کو اجتماعی سزا سے گزار رہے ہیں جو غیر انسانی عمل ہے اور یہ بھی انسانی حقوق کی ایک سنگین خلاف ورزی ہے –

میں زندگی کے ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے اور دردّ دل رکھنے والے لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ میرے والد کی جبری گمشدگی کو تیرہ سال مکمل ہونے پر آج ہم کراچی پریس کلب کے کانفرنس روم میں ایک سیمینار منعقد کر رہے ہیں، وہ آئیں بنفس نفیس ہمارا ساتھ دیں اگر فزیکلی کوئی شریک نہیں ہو سکتا ہے تو کسی نا کسی طرح سے ہماری آواز بنیں ۔ شاید آپ کی آواز میرے والد کی بازیابی میں مددگار ثابت ہو اور میرے خاندان کو اس مشکل حالات اور اذیت ناک درد سے نجات حاصل دلا دے ۔

 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز