سه شنبه, اپریل 8, 2025
Homeخبریںمیں باغی ہوں۔ مہرناز بلوچ

میں باغی ہوں۔ مہرناز بلوچ

ہاں میں باغی ہوں میرے ہاتھ میں حق کا جھنڈا ہے، اور میرے سر پر ظلم کا پھندا ہے۔ میں مرنے سے کب ڈرتی ہوں؟ میں تو موت کی خاطر زندہ ہوں۔ میرے خون کا سورج جب چمکے گا، تو بچہ بچہ بولے گا، “میں باغی ہوں، میں باغی ہوں!” جو چاہے مجھ پر ظلم کرو، میں نہیں جھکوں گی۔ باغی ہوں

میں اُس دشت سے اُٹھ کر آئی ہوں جہاں کے لوگوں میں بے بسی ہے۔ جہاں ہزاروں جوان نہ آسکے ہیں، نہ آسکیں گے۔ میں نے اُن وحشیوں کو دیکھا ہے جن کے ہاتھ سے میرے وطن کے باسیوں کے لہو سے رنگین تھے۔ اُسی نے میری ماں کے سر سے حیا کی چادر چھینی۔ اُسی کا دیا ہوا ظلم ہے کہ آج میں باغی ہوں،مزاحمت کو زندگی سمجھتی ہوں، میں بچپن سے ہی لڑ رہی ہوں۔ مجھے مرنے کا کوئی شوق نہیں، نہ ہی اِس عمر میں زمین کے سینے میں نیند کرنے کی خواہش ہے۔ اُس تیز ہوا نے جو کچھ چھینا ہے، میں اُسے واپس لاؤں گی۔ میں اُسی ہوا کو کمزور کرنے کے لیے باغی ہوں۔

سیاہ راتوں کی تاریکی ہمارے آنگن کو مت جلاؤ۔ ہمارے بھائی یہاں نہیں ہیں، وہ روشن قندیل گُم ہو چکے ہیں۔ میں اُس روشنی کو واپس لانے نکلی ہوں۔ تب ہی تو وطن کی مہک بہاروں میں محسوس ہو رہی ہے۔ میرے بچپن کے سہیلی ابھی تک دشتِ کنول اُٹھائے بیٹھے ہیں۔ سنا ہے وہ جابروں سے باغی ہیں، اور اِس سرزمین کے عاشق ہیں۔ وہ سرمچار ہیں، زمین زادے ہیں، شہسوار ہیں۔ وہ ہماری ماؤں کی کرن کی امید ہیں، بُجھتے سورج کی مستی ہیں۔ اُنہوں نے ظلم کے سارے نظام دیکھے ہیں۔ وہ باغی ہیں، میں باغی ہوں، ہم سب باغی ہیں۔

 ہاں، میں باغی ہوں۔ میرے خون میں، میری سوچ میں، میرے خیالوں میں، میرے ارادوں میں، میرے اظہار میں، میرے قدموں میں، میرے جذبوں میں، میرے تجربوں میں، میری حمیت میں، میری طاقت میں، میری نفرت میں، صرف بغاوت ہے۔ میں باغی رہنا چاہتی ہوں، میں باغی بننا چاہتی ہوں۔ بغاوت میری فطرت میں ہے، میرے خون میں ہے، میرے دل کی دھڑکن میں ہے۔ میری سرزمین کی ہواؤں میں بغاوت کی خوشبو مہکتی ہے۔ ہاں، میں باغی ہوں!

میں تمہارے بنائے گئے ان ڈیتھ اسکواڈ کے خلاف باغی ہوں جنہوں نے برمش کو ماں سے محروم کیا، اس کی ماں ملک ناز کو بے دردی سے شہید کیا۔ امیراں بی بی کی عصمت دری کی گئی، پھر انہیں مار کر کنویں میں پھینک دیا۔ اسما جتک کو اغوا کیا۔ہاں میں باغی ہوں تمہارے ان درندوں کی درندگی سے، جنہوں نے حیات جیسے پھول کو اس کی ماں کے سامنے آٹھ گولیاں مار کر قتل کیا۔ رامیز کو نیند سے گولیوں کی بوچھاڑ سے چھلنی کیا۔ بالاچ کو قتل کیا۔ سمی کی والد کو لانے کے بجائے اسے قید کیا۔ ماہ رنگ کو انصاف دینے کے بجائے آج جیل میں ڈالا ہے۔

میں ظلمت کے خلاف بغاوت کا علم بلند کرتی ہوں، ان تاریکیوں کے خلاف جو انصاف کی روشنی کو بجھانے کی کوشش کرتی ہیں۔ میں باطل کے خلاف کھڑی ہوں، ان باطل کے خلاف جو سچائی کو مسخ کرتا ہے۔ میں حق کی خاطر لڑتی ہوں، ان اقدار کے لیے جو ہمیں انسان بناتی ہیں۔میں اپنی وجود کے لیے باغی ہوں، اپنے ذات کے لیے، اپنی آزادی کے لیے۔ میں تیری ناانصافی کے خلاف سر اٹھاتی ہوں، ان فیصلوں کے خلاف جو تعصب اور ظلم پر مبنی ہیں۔ میں یزیدیت کی ان تمام شکلوں کے خلاف بغاوت کرتی ہوں جو طاقت کا ناجائز استعمال کرتی ہیں اور انسانیت کو پامال کرتی ہیں۔ میں تیرے استحصال کے خلاف لڑتی ہوں، ان نظاموں کے خلاف جو کمزوروں کو کچلتے ہیں اور طاقتوروں کو نوازتے ہیں۔

ہاں! میں باغی ہوں!

 

ہاں! تو اٹھا تلوار کر سر تن سے جدا۔

تو تھام بندوق مظلوموں کو مار گرا۔

تو تعمیر کر کالی کوٹھریاں، کر اپنوں کو ہم سے جدا۔

تو کر انتظار ان کالی راتوں کا۔

تو آ، آ کر میرے گھر کی چادر و چار دیواری کی حرمت کو پامال۔

کہ آ اس مظلوم بہن کے محافظ کو ہتھکڑی پہنا۔

کہ اس بے بس ماں کا سینہ چیر پھاڑ کر اس کے لخت جگر کو گھسیٹتے ہوئے لے جا۔

اس بوڑھے باپ کا سہارا چھین کر اس کے لہو سے لت پت لاش گرا۔

آ، ان تاریک راتوں میں، ایک بار پھر میرا مدھم سا چراغ بجھا جا۔

کہ آ، میرے گھر کے آنگن کو خونم خون کر جا۔

کہ آ، ظلم و جبر کے حدود کو پار کر جا۔

میرے خوابوں کو ریزہ ریزہ کر جا ۔

میرے گھر کو راکھ میں بدل جا۔

آ، اپنے بربریت کا کھیل آخری حد تک کھیل جا۔

 پر اے ظالمو!

کیا تمہیں اس دن کا خوف نہیں جب اسرافیل صور پھونکے گا؟ جب عزرائیل تمہاری روح قبض کرنے آئے گا؟ جب تم بے بس ہوگے، تمہارے پاؤں بندھے ہوں گے اور تم تاریکی میں دھکیلے جاؤ گے؟ تم چیخو گے، چلاؤ گے، مگر تمہاری آہ سننے والا کوئی نہ ہوگا۔ جب منکر نکیر تم سے پوچھیں گے: “تم نے کن کن کا خون بہایا؟ تم نے کتنی لاشیں گرائیں؟” جب تم خوف و وحشت میں مبتلا ہوگے، تمہاری زبان سے ایک حرف بھی نہ نکل سکے گا۔ جب تمہارے قدم خدا کے حضور سے نہ اٹھ پائیں گے، جب تم سے وہ پانچ سوال کیے جائیں گے جن کا جواب دینا تم پر فرض ہوگا—تب تم کیا کہو گے؟

جب تم برزخ میں تکلیف سے گزرو گے، جب تم سے حساب لیا جائے گا اور تمہاری ظلم و برائیوں کا پلڑا بھاری ہوگا، جب تم شدید گرمی کی شدت میں تڑپو گے، جب پیاس تمہاری جان نکال رہی ہوگی اور پھر بھی تمہیں آبِ کوثر نصیب نہ ہوگا—تب تم کس کو پکارو گے؟ جب تم تنہا ہوگے، تمہارے لیے شفاعت کرنے والا کوئی نہ ہوگا، نہ رسولؐ، نہ ولی، نہ کوئی مددگار—تب تم کیا کرو گے؟جب تم پل صراط پر چلنے سے قاصر ہوگے، جب تیز دھار تلوار اور باریک بال جیسا پل تمہارے لیے ایک ناقابلِ عبور راہ بن جائے گا، جب جہنم کا داروغہ مالک تمہارا استقبال کرے گا—تب تم کس کو مدد کے لیے پکارو گے؟ کیا تم تب بھی اپنی خدائی کے دعوے کرو گے؟آج تم اپنے ظلم و بربریت کو قرآن و حدیث کے سائے تلے چھپانے کی کوشش کر رہے ہو، اپنے گناہوں کے ڈھیر پر سیاہ چادر ڈال کر خود کو نیکوکار ثابت کرنا چاہتے ہو۔ تم مظلوموں کا خون بہا کر خود کو اسلام کا رکھوالا کہتے ہو، لیکن کیا تمہیں وہ حدیث یاد نہیں جو صحاح ستہ میں رقم ہے؟مظلوم کی بددعا سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں۔کیا تم رسول کو بھول چکے؟ کیا تم ان کی احادیث فراموش کر بیٹھے ہو؟ اے وحشی! تم رسولؐ کی امت ہونے کا دعویٰ کرتے ہو، پھر کیوں ماں کی فلک شگاف صدائیں نہیں سنتے؟ کیوں ان کے پیروکار مظلوموں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں؟ اگر تم بھول چکے ہو تو یاد کرو کہ خدا نے سورہ المائدہ، آیت 32 میں فرمایا:”جس نے ایک بے گناہ کو ناحق قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کا قتل کیا۔”کیا تم نے کبھی سوچا؟ تم نے کتنی ماؤں کی گود اجاڑ دی؟ کتنی بہنوں کے محافظوں کی گولیوں سے چھلنی لاشیں پھینکیں؟ کتنے بوڑھے باپوں کے بڑھاپے کے سہاروں کو سیاہ زندانوں میں غلام بنا کر جھونک دیا؟ کیا کبھی اس بھائی کے غم زدہ چہرے کو دیکھا جس نے اپنے جوان بھائی کی لاش پر آنسو بہائے؟جب قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا کہ تم نے ہنستے بستے گھروں میں حشر کیوں بپا کیا؟ جب تمہیں جواب دینا ہوگا کہ تم نے اس نازک پھول کو کیوں مرجھا دیا؟ جب تمہاری لڑکھڑاتی زبان تمہارے کیے کا سبب نہ بتا سکے گی، جب تم پر قہر و غضب کا پہاڑ ٹوٹے گا—تب تم کس کو پکارو گے؟ کیا جبرائیل تمہاری مدد کو آئیں گے جیسے وہ یوسفؑ کو کنویں میں گرنے سے بچانے آئے تھے؟ جیسے انہوں نے اسماعیلؑ کی جگہ جنتی مینڈھا قربان کرایا تھا؟ جیسے انہوں نے خدا کے حکم پر ابراہیمؑ کو دہکتی آگ میں جلنے سے محفوظ رکھا تھا؟ کیا وہی جبریل آئیں گے جنہوں نے غزوۂ بدر میں رسول اللہؐ کے لہو کو زمین پر گرنے سے روکا تھا؟ جب خدا نے فرمایا جاؤ رسول کے خون اپنے ہاتھوں میں لے لو اگر خون کا ایک قطرہ زمین پر ٹپکا تو زمین پر کبھی شادابی نہیں ہوگی؟ یہ زمین بنجر بن جائے گی۔ جس طرح رسول کی خون کو ہاتھوں میں لے کر فضاؤں میں اڑا دیا کیا تجھ ظالم درندے کے لئے وہ رحمن اور رحیم ہوگا

نہیں!

جبرائیل تمہارے لیے نہیں آئیں گے۔

خدا کی رحمت تم پر سایہ نہیں کرے گی۔

اے جابر!

تم ہزاروں میل دور فلسطین میں ہونے والے ظلم پر افسوس کا اظہار کرتے ہو، تم یہودیوں کے خلاف جہاد کا اعلان کرتے ہو، تم خطبے دیتے ہو—لیکن اپنے ہی پہلو میں، میرے گل و گلزار چمن بلوچستان میں بہنے والے خون کی ندیوں پر تمہاری زبان خاموش کیوں ہے؟ تم ماؤں کے جگر گوشوں کو گولیوں سے چھلنی کیوں کر رہے ہو؟ تم، جو اسلامی تہذیب کے دعوے دار ہو، بلوچستان کی بیٹیوں کے دوپٹے سڑکوں پر کیوں پھینکتے ہو؟ تم ان کی عزتوں کو نیلام کیوں کرتے ہو؟ تم عورتوں کو غیرت کہہ کر بھی ان کو تھانوں میں کیوں گھسیٹتے ہو؟ تم، جو ماں کو جنت اور باپ کو جنت کی کنجی کہتے ہو، انہی والدین کو اپنے قدموں تلے روند کر دوزخ میں دھکیل رہے ہو۔تم قرآن کی بے حرمتی کرنے والے کو کافر قرار دیتے ہو، مگر خود قرآن کے تقدس کو پامال کرتے ہو—یہ کیسا اسلام ہے؟ یہ کون سی تہذیب ہے؟میں کیا کہوں؟میں اپنے خون میں ڈوبے پرچم کی کہانی کیسے سناؤں؟ میں کیسے بتاؤں کہ بلوچستان کی سرزمین پر ہر بچہ ظلم کی سیاہ رات میں پل رہا ہے؟ یہاں ہر ماں کی آنکھوں کے آنسو خشک ہو چکے ہیں، ہر بہن خوفزدہ ہے، ہر بھائی اپنے مقتول بھائی کی لاش دیکھ کر بغاوت کی آگ میں جل رہا ہے، ہر باپ خدا سے انصاف کی فریاد کر رہا ہے۔ میں لرزتی زبان سے اپنی بہنوں کی عزتوں پر کیسے بات کروں، جنہیں سڑکوں پر گھسیٹا جا رہا ہے؟ میں ان بھائیوں کے حق میں کیا کہوں جو اپنی جبری گمشدگی سے پہلے ہی اپنی تصویر بنا کر گمنام ہونے کی تیاری کر رہے ہیں؟ میں کیا کہوں کہ تم نے کتنے مقتل گاہ سجائے ہیں؟یہاں حق کی بات کرنا بغاوت کہلاتا ہے، یہاں سچ لکھنا غداری کہلاتا ہے۔

میں جانتی ہوں!

ہاں، میں جانتی ہوں!

تم مجھے دہشتگرد کہو گے، تم مجھے باغی کہو گے، تم مجھے اپنی نام نہاد اسلامی سلطنت میں کافر قرار دو گے۔گر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا دہشت گردی ہے، تو ہاں! میں دہشت گرد ہوں!اگر سچ لکھنا اور حق بیان کرنا بغاوت ہے، تو ہاں! میں باغی ہوں!

 پر یاد رکھنا!

میرا قلم بکے گا نہیں،

میری آواز دبے گی نہیں،

میرے خیالات جھکیں گے نہیں!

ظلم کے اندھیروں میں اگر سچائی کی شمع جلانا جرم ہے، تو ہاں میں مجرم ہوں!

 ہاں میں باغی ہوں!

اے ظالم! کیا تمہیں اس دن کا خوف نہیں جب زمین زلزلے سے پھٹ جائے گی، پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جائیں گے، سمندر ابل پڑیں گے، اور آسمان تاریک ہو جائے گا؟ جب سورج بے نور ہو جائے گا، چاند ماند پڑ جائے گا، اور ستارے ٹوٹ کر بکھر جائیں گے؟ جب ہر نفس کو اپنے کیے کا حساب دینا ہوگا، جب کوئی کسی کا مددگار نہ ہوگا، اور جب انصاف کا ترازو قائم ہوگا؟

کیا تمہیں اس دن کا خوف نہیں جب تم اپنے اعمال کے بوجھ تلے دبے ہوئے خدا کے حضور پیش کیے جاؤ گے؟ جب تمہارے اعضاء گواہی دیں گے، تمہاری زبانیں بند کر دی جائیں گی، اور تمہارے ہاتھ پاؤں تمہارے خلاف بولیں گے؟ جب تمہاری آنکھیں تمہارے جرائم بیان کریں گی، اور تمہارے کان تمہارے گناہوں کی گواہی دیں گے؟ جب تم اپنے کیے پر پچھتاؤ گے، مگر پچھتاوے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا؟

اے جابر! تم آج طاقت کے نشے میں مست ہو، تم سمجھتے ہو کہ تم سب کچھ کر سکتے ہو، کہ کوئی تمہیں روکنے والا نہیں، کہ تم ہمیشہ یوں ہی رہو گے۔ مگر یاد رکھو، یہ دنیا فانی ہے، یہ طاقت عارضی ہے، یہ غرور ٹوٹنے والا ہے۔ تم آج جو کچھ کر رہے ہو، کل اس کا حساب دینا ہوگا۔ تم آج جو بو رہے ہو، کل وہی کاٹو گے۔تم آج مظلوموں کی چیخوں کو دبا سکتے ہو، ان کے آنسوؤں کو پونچھ سکتے ہو، ان کے زخموں کو چھپا سکتے ہو۔ مگر کیا تم خدا کی عدالت سے بچ سکو گے؟ کیا تم اس دن کا سامنا کر سکو گے جب ہر ظلم کا بدلہ لیا جائے گا، جب ہر آنسو کا حساب ہوگا، جب ہر زخم کا انصاف ہوگا؟

میں جانتی ہوں، تم مجھے پاگل کہو گے، تم مجھے دیوانی کہو گے، تم مجھے خوابوں کی دنیا میں رہنے والی کہو گے، مگر میں تمہیں بتاتی ہوں، یہ خواب نہیں، یہ حقیقت ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس سے تم بھاگ نہیں سکتے، جس سے تم منہ نہیں چھپا سکتے۔ یہ وہ حقیقت ہے جو تمہیں ایک دن ضرور جھنجھوڑے گی، جو تمہیں تمہاری اوقات یاد دلائے گی۔

میں تمہیں بتاتی ہوں، اے جابر! خدا کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ وہ ظالموں کو مہلت دیتا ہے، مگر انہیں چھوڑتا نہیں۔ وہ مظلوموں کی دعا سنتا ہے، اور وہ ضرور انصاف کرتا ہے۔اور میں، میں باغی ہوں، میں ظالموں کے خلاف آواز اٹھاتی رہوں گی، میں مظلوموں کا ساتھ دیتی رہوں گی، میں حق کی بات کرتی رہوں گی۔ہاں میں باغی ہوں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز