جان اسٹین بیک ایک نوبل انعام یافتہ ناول نگار ہیں. وار فکشن ناول پسند کرنے اور ایک سماج میں نئے ابھر نے والوں کے لیے یہ ایک بہترین ناولوں میں سے ایک ہے. اس ناول میں کسی ملک کا نام نہیں ہے لیکن یہ سمجھنے میں دقت نہیں ہوگا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمن افواج اپنی مختلف حربوں اور کارندوں کو استعمال کرتی رہی ہیں تاکہ عوام کے دلوں میں اپنی مقام بناکر اور وقت پڑنے پر انہیں غفلت کی نیند سلا دیں۔ یہ سب اس لیے ہوتے ہیں کہ افواج اور سرمایداروں کو کوہی دشواری نہ ہو ۔ دراصل ، ناول میں کرداروں کی نفسیات، نوآبادیاتی نظام سرمایہ داری کی عکاسی بہت بہترین طریقے سے کی گئ ہے. چاہے وہ وطن دوست، پکار کو سننے اور مظلوم عوام کا درد رکھنے والا میئر ہو( وہ انگریز کے ہاتھوں سے پکڑا جاتا ہے تو پہلے انہیں اچھے عہدے پر فائز کرتے ہیں لیکن بعد میں ، میئر آرڈن مزاحمت کی راہ کا اختیار کرتے ہوئے لوگوں کو غلامی کی زنجیروں سے نکالنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے تو وہ اور ڈاکٹر ونٹر پکڑے جاتے ہیں تاکہ وہ مزید کچھ نہ کر سکیں لیکن مئر بڑے دلیری اور جرت مندانہ ، کرنل لانسر سے کہتا ہے،”اس فیصلے کو دنیا کی کوہی طاقت نہیں بدل سکتی کہ ہم آپ کو اپنے ملک سے نکال کر چھوڑیں گے.”) یا موت کی سزا پانے والا مجرم . چاہے وہ گھر سے دور محاذ پر لڑنے والا سپاہی ہو یا شوہر کا انتقام لینے والی بیوہ عورت جس نے ایک لفٹننٹ کی قتل کی ہو.
اس کتاب میں مصنف بیان کرتا ہے کہ جب بھی کسی غاصب نے کسی علاقہ پر قبضہ کیا ہے تو وہ صرف زمین کے ٹکڑے پر قابض ہوا ہے. بزور شمشیر کبھی بھی لوگوں کے دل فتح نہیں ہو سکے ہیں. اس کتاب پر واضع طور پر ظاہر ہے کہ انگریز فوج نے دنیا کے آدھے حصے پر قبضہ کیا تھا لیکن انہیں لوگوں کے دلوں پر قبضہ جمانے کی دلیل نہ تھی اس لیے وہ زیادہ دیر تک ٹہر نہ سکے. دنیا کے آدھے حصے میں سے ایک ایسا ملک تھا جو انگریزوں کے ہاتھ میں لگ گیا اور اپنے سرمایہ داری کے نظام کو قائم کرنے کے لیے انہیں ظلم و جبر سے کام کرانے کی ضرورت پڑی۔ ان کا مقصد وہاں سے کوئلہ نکالنا ہوتا ہے.ایک غدار جس کا نام کوریل ہوتا ہے اور جو نشانہ باز اور گاوں میں ہر دلعزیز ہوتا ہے اس کی مدد سے گاوں پر قبضہ کر لیتے ہیں ظاہر سی بات ہے لوہا کبھی بھی کسی درخت کو نہیں کاٹ سکتا جب تک اس کے ساتھ اس درخت کا دستہ نہ ہو.. اسی طرح مفتوحہ قوم کی شکست میں اکثر غداروں کا ہاتھ ہوتا ہے. شروع سے آخر تک وہ انگزیر فوج، مظلوم عوام کی اصل پہچان کو سمجھ نہیں سکتے تھے کہ یہی لوگ کل ان کو انتقام تک پہنچاتے ہیں انگریز سرکار انہیں امن پسند سمجھنے کے ساتھ ساتھ خود کو بھی امن پسند اور سمجھ ٹہراتے ہیں.
جب ایلگذ کو عبرتناک موت دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں تاکہ دوسرے عبرت پکڑیں اور آئندہ ایسی حرکت نہ کریں اور کرنل لانسر نے پوچھا کہ آپ نے کیپٹن کو کیوں مارا تو ایلگذ نے جواب دیا کہ جب اس نے مجھے کہا مجھے کام کرنا پڑے گا تو مجھے غصہ آگیا. میں ایک آزاد آدمی ہوں. کسی کی غلام نہیں، میں نے غصے سے پاگل ہونے اس پہ ہاتھ اٹھایا اور میرا خیال ہے کہ چوٹ زیادہ زور سے پڑ گئی حالانکہ میں اس کو تو مار لینا ہی نہیں چاہتا تھا.” اور بہت کچھ باتیں کرنے کے بعد جب انہیں ماردیا گیا اس کے بعد شہر کے حالات بگڑ گئی اور سردی کے ساتھ ساتھ یہ سرد نفرت بھی بڑھتی گئی۔ خاموش اور غضب ناک نفرت جو انتقام کے لیے موقع کی منتظر تھی. اسی لیے ایک جگہ مصنف نے منشن کیا ہے کہ کوئی آزاد قوم کبھی جنگ شروع نہیں کرتی لیکن ایک دفعہ شروع ہو جائے تو شکست کھا کے بھی لڑتی رہتی ہے. لیڈروں کے پیچھے پیچھے چلنے والے بھیڑ چال کے عادی لوگ ایسا نہیں کر سکتے. اسی لیے وہ عارضی طور فتح پا لیتے ہیں مگر انجام کار انہیں شکست ہوتی ہے اور فتح آزاد قوم کی ہی ہوتی ہے. جب فوج پہلے قبضہ کرتے ہیں تو لڈائی ختم ہونے کے باوجود وہ گاوں کے لوگوں سے اور میئر سے بھی اسلحہ یعنی دونوں بندوقوں کو لیکر نہتا کر دیا جاتا ہے ایک نشانہ باز بندوق تھا اور دوسرا رائفل کہ وہ بغاوت نہ کر سکے لیکن انہیں کیا پتہ کہ انتقام بغاوت اور آزادی کے لیے اسلحے کا ہونا اور نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا. بغاوت کی چنگاری ایک نہ ایک دن ضرور بھڑکتی ہے اور جب یہ بھڑکتی ہے تو ظالموں اور غاصبوں کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ جس طرح یہی انگریز سامراج نے سالوں بعد دیکھی تھی کہ ظلم زیادہ دیر تک نہیں ٹہر سکتی. انگریز سامراج کو یہ پتہ نہیں ہوتا ہے۔
اس کتاب کے تبصرہ دینے کے ساتھ ساتھ مجھے فینن کی کتاب”افتادگان خاک“ اور ژاں پال سارتر کی کتاب” وجودیت اور انسان دوستی“ کے کچھ خوبصورت جملے یاد آرہے ہیں. افتادگان خاک میں لکھاہے” صدیوں کی واہموں اور عجیب و غریب توہمات میں لت پت رہنے کے بعد، بالآخر دیسی باشدہ اپنے ہاتھوں میں بندوق تھام کر ان قوتوں کے سامنے ڈٹ جاتا ہے جو اس کی زندگی سے کھیلتی رہتی ہیں۔۔۔۔یعنی نوآبادیاتی نظام کی قوتیں۔۔ نوآبادی کا نوجوان جو گولیوں کے ساٸے میں پل کر نوجوان ہوتا ہے اپنے اجداد کے زومبیوں، دوسرے والے گھوڑوں، مرے ہوٸے لوگوں کی روحوں، اور ان جنوں کا جو جماہی لیتے وقت آدمی کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں، مزاق اڑاتا ہےاور ان سے نفرت کے اظہار میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتا٠٠٠ دیسی باشندہ حقیقت کشادراک حاصل کرلینے کے بعد اسے اپنے رسم و رواج میں، متشدانہ عمل میں اور آزادی حاصل کرنےکی تدبیروں میں متشکل کرتا ہے٠“ اور ” وجودیت اور انسان وستی“ میں، ژاں پال سارتر لکھتے” میری کتاب”آزادی کی رہیں“ کے خلاف بڑا الزام ہی یہ لگایاجاتاہےکہ”اچھا، اگر یہ لوگ اس قدر کمینے ہیں تو آپ انہیں ہیرو کونکر بناسکتے ہیں۔“ ژاں پال سارتر کا کہنا ہے کہ ”لوگ ہیرو ہی پیدا ہوتے ہیں.“ اور مزید لکھتے ہیں کہ” بزدل خود کو بزدل اور بہادر اپنے آپ کو بہادر بناتاہے اور اس بات کا امکان ہمیشہ موجود رہتا ہے کہ کوہی بزدل بزدلی سے نجات پانے والے اور بہادر بہادر نہ رہے. اہم شۓ کمٹمنٹ ہے.“
اگر دونوں نقطہ نظر یعنی ژاں پال سارتر کے فلسفیانہ اور فینن کی انقلابی سوچ سے دیکھا جاٸیں تو یہ بات کا گواہ ہر کو ہی ہو تا ہے کہ سامراجی قوتوں کو دیسی باشندہ تب ختم کر سکتا ہے جب وہ اپنے اندر کی جراثیموں کو ختم کرنے کی اور کمٹمنٹ ہونے کی صلاحیت رکھتا ہو ۔
اس ناول میں واضح سے ظاہر ہے کہ ہر انقلابی نے اپنے اندر کی جراثیم اور زومبیوں کو انتقام تک پہنچایا، ہولناک صورتحال کو بلکل ڈی ڈی کا استعمال کرنا چاہا،خود کو اور اپنے اردگرد کے لوگوں کو تیار کیا، یہی تو ہے دیسی باشندہ کی راہ وہ خود کو زنجیروں سے آزاد کر سکتا ہے۔