واشنگٹن(ہمگام نیوز ) وائٹ ہاؤس نےکہا ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں حماس کے خلاف جاری لڑائی کے اس مرحلے پر جنگ بندی کی تجاویز کی حمایت کرتا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا کہ اب ہماری توجہ حماس اور اسرائیل کےدرمیان جنگ بندی سے متعلق نقطہ نظراختلافات کی خلاء کو ختم کرنا ہے۔

وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر سلیوان نے جنوبی اٹلی میں ’جی سیون‘ کے رہ نماؤں کے اجلاس کے موقع پر نامہ نگاروں کو بتایا کہ دنیا کو حماس کو اس تجویز کو قبول کرنے اور جمود سے بچنے کی ترغیب دینی چاہیئے۔

سلیوان نے اس سے قبل کہا تھا کہ جنگ بندی کے مشورے پر حماس کی تجویز کردہ تبدیلیاں دراصل معمولی بات نوعیت کی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ اس تجویز میں خلا کو ختم کرنے کے لیے مصر اور قطر کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔

اس سے قبل حماس کے ایک سینیئر رہ نما نے جمعرات کو رائٹرز سے گفتگو میں کہا تھا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ذریعہ پیش کی جانے والی جنگ بندی کی تجویز پر جو ترمیم کی درخواست کی گئی ہے، اس میں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ حماس کے مطالبات میں جنگ بندی کے تین مسلسل اور باہم مربوط مراحل کا مطالبہ شامل ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مطالبات میں غزہ کی پٹی سے اسرائیلی افواج کی مکمل واپسی شامل ہے۔

انہوں نے کہا کہ حماس کو طویل قید کی سزاؤں کے تحت سزا یافتہ فلسطینیوں کی رہائی کا سو فی صد اختیار اسرائیل کو دینے پر اعتراض ہے۔ قیدیوں کے بارے میں حماس کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہونا چاہیے۔

حماس کے رہ نما نے کہا کہ ان ترامیم میں غزہ کی تعمیر نو اور محاصرے کو اٹھانا شامل ہے۔اس میں بارڈر کراسنگ کھولنا ، آبادی کی نقل و حرکت کی اجازت دینا اور بغیر کسی پابندی کے سامان کی نقل و حمل شامل ہے۔

حماس نے کہا کہ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن کی طرف سےجنگ بندی معاہدے کی کوششوں کا حماس پرا لزام عاید کرنا دراصل واشنگٹن اور تل ابیب کے درمیان ملی بھگت کا ثبوت ہے ۔

حماس کا اشارہ بلنکن کے اس بیان کی طرف جس میں نے حماس سے جنگ بندی کو بغیر کسی تبدیلی کے قبول کرنے پر زور دیا تھا ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ اگر حماس جنگ بندی کی تجویز سے متفق نہ ہوئی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حماس نے امن کے بجائے جنگ کا انتخاب کیا ہے۔

حماس نے جمعرات کو ایک بیان میں مزید کہا تھا کہ اس نے جامع معاہدے تک پہنچنے کی تجویز کا مثبت جواب دیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کی تجاویز پر ذمہ دارانہ موقف اپنائے ہوئے ہیں۔

حماس نے امریکی انتظامیہ کے بیان میں مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالے تاکہ وہ معاہدہ قبول کرے جس سے پٹی میں مستقل جنگ بندی کا قیام عمل میں لایا جائے۔

حماس نے کہا کہ امریکی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے 31 مئی کو صدر جو بائیڈن کی پیش کردہ تجویز کو قبول کیا ہے مگردنیا نے نیتن یاہو اور ان کی حکومت کی طرف سےاس تجویز پر کوئی مثبت رد عمل نہیں دیا گیا‘۔