کابل (ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق گزشتہ روز افغان دارالحکومت کابل میں ”کابل یونیورسٹی“ میں دھماکوں اور فائرنگ کے نتیجے میں 22 طلبہ و طالبات جاں بحق اور 40 کے قریب زخمی ہوئے ـ جس کی ذمہ داری عالمی دہشتگرد تنظیم داعش نے قبول کی ـ
اس حملے کی اگلی صبح دیکھا گیا کہ جائے وقوعہ کی دیواروں پر افغان طالبان کی حمایت پر دال جملے لکھے گئے ہیں اور سڑک کنارے دوحہ مذاکرات کے مخالف پوسٹرز بھی آویزاں ہیں ـ
پوسٹرز پر درج جملوں میں ”بائیکاٹ دوحہ ٹاک“ اور ”ابو جہل کے لشکر (طالبان) سے مذاکرات نہیں کریں گے“ جیسے جملے آویزاں تھے ـ
افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد اور سیاسی ٹیم کے ترجمان ڈاکٹر نعیم وردک نے اسے این ڈی ایس کی سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ بھی ان کی سازش کا حصہ ہیں ـ
طالبان کے حامی سوشل میڈیا صارفین نے اس پر سوال اٹھایا کہ حملے میں مصروف حملہ آور کیسے دیواروں پر لکھ سکتے ہیں؟ اور جب شام تک جنگ جاری تھی تو ہائی کوالٹی پوسٹرز کس نے چھاپ کر راتوں رات لگالیے؟
ایک اور خبر میں افغان نائب صدر امراللہ صالح نے کہا کہ یہ حملہ طالبان نے کیا ہے کیونکہ داعـش کی جانب سے جاری کردہ تصویر میں اور واقعے میں استعمال ہونے والے اسلحے ایک دوسرے سے مختلف ہیں ـ
اسکے جواب میں ذبیح اللہ مجاہد نے کہا کہ جو اسلحہ تصویر میں ہے وہ انکی تربیت گاہ کا اسلحہ ہے اور جو اسلحہ استعمال ہوا وہ ”این ڈی ایس“ نے دیا ہے ـ
یاد رہے کہ افغان طالبان شروع سے داعـش کو افغان حکومت سے جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ افغان حکام اسے حقانی نیٹ ورک کے حمایت یافتہ قراردے رہے ہیں ـ
واضح رہے کہ اس سے قبل ایسا نہیں ہوا کہ داعـش نے کسی حملے کی ذمہ داری قبول کی ہو اور حکام نے اس شدومد سے طالبان سے جوڑنے کی کوشش کی ہو ـ