شال (ہمگام نیوز) بلوچ نیشنل موومنٹ ( بی این ایم ) کے محکمہ انسانی حقوق پانک نے بلوچستان میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپریل 2024 کی رپورٹ جاری کی ہے۔ جس میں بلوچستان میں ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کی تفصیلات شامل ہیں۔رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج سے منسلک ایجنسیوں نے ماورائے عدالت و قانون گرفتاریوں کے بعد 37 افراد کو جبری لاپتہ کیا۔ قبل ازیں جبری لاپتہ کیے گئے 21 افراد کو رہا کیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق 11 اپریل کو ملک ربا ولد گل محمد مری کو مچی چوکی سے حراست میں لیا گیا تھا اور 13 دن بعد ضلع سیبی سے ان کی لاش ملی۔

پانک کی ماہانہ رپورٹ میں اس دعوے کو دہرایا گیا ہے کہ 14 اپریل کو لیویز ملازم برکت ساجدی کی موت خودکشی نہیں بلکہ ریاستی قتل تھی۔پانک اس پر الگ سے تحقیقاتی رپورٹ بھی شائع کرچکا ہے۔

پا نک کی ماہانہ رپورٹ کے مطابق اپریل 2024 میں شال سے 3 ، کیچ سے 8 ، آواران سے 12 ، کوھلو سے 1 ، گوادر سے 4 ، ڈیرہ بگٹی سے 1 ، خضدار سے 2 ، خاران سے 1 ، ھب سے 3 اور ضلع چاغی سے 2 افراد کو جبری لاپتہ کیا گیا۔

رپورٹ میں گوادر کے گرد باڑ لگانے اور راشد حسین کیس کی سماعتوں کی التوا کے معاملےکو گذشتہ مہینے پیش آنے والے انسانی حقوق کی نمایاں خلاف ورزیوں کی طور پر پیش کیا گیا ہے۔پانک کی رپورٹ کے مطابق انسانی حقوق کے کارکن راشد حسین بلوچ کی جبری گمشدگی کے کیس کی پیروی کرنے والی معروف وکیل ایمان مزاری نے عدالتی کارروائی پر عدم اطمینان کا اظہار کیا ہے جو تشویش اور مایوسی کا باعث ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے پاکستان کی عدالتیں غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کررہی ہیں جو جبری گمشدگان سے متعلق پہلے سے موجود کمزور امید کو مزید مایوسی میں بدل رہی ہے۔ کسی بھی ریاست کا عدالتی نظام حکمران اور اختیار داروں کو ان کے آئینی اور قانونی حدود میں رہنے کے لیے اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ جہاں عدالتیں اپنا کام کرتی ہیں وہاں شہریوں کی بے چینی میں نمایاں کمی ہوتی ہے اور شہریوں کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں مگر پاکستان ایک ایسی ریاست ہے جہاں کی عدالتیں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ وہ آزاد نہیں۔

پانک نے زور دیا ہے کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے پہلے سے زیادہ متحرک کردار ادا کریں اور با اثر ممالک کو کہہ کر پاکستان پر جبری گمشدگیوں کے حوالے سے دباؤ ڈالیں۔ اقوام متحدہ کے ایک رکن ملک کے لیے انسانی حقوق کی اس بڑے پیمانے پر پائمالی آسان اور نظرانداز کرنے والا معاملہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ اقوام متحدہ واضح کرتی ہے کہ جبری گمشدگی محض ایک فرد اور خاندان کے خلاف معاملہ نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف جرم ہے۔ بدقسمتی سے اقوام متحدہ ، عالمی قیادت اور انسانی حقوق کے ادارے گذشتہ دو دہائیوں سے جاری جبری گمشدگی کے ایک تسلسل کو روکنے میں ناکام ہیں جو ان اداروں پر بلوچ قوم کے اعتماد کو بری طرح متاثر کر رہا ہے۔

پانک نے خبردار کیا ہے کہ گوادر میں باڑ لگانے کا معاملہ ایک نئے تنازعے کی شکل اختیار کر سکتا ہے، جس سے بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین صورتحال مزید ابتر ہو سکتی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ، گوادر شہر کے بارے میں ریاستی سطح پر جو سوچ پائی جاتی ہے اس سے نا صرف بلوچ قوم اور ریاست کے درمیان فاصلے مزید بڑھیں گے بلکہ یہ معاملہ پورے بلوچستان کو متاثر کرئے گا۔کیونکہ پاکستانی اسٹبلشمنٹ اس تاثر کو ہوا دے رہی ہے کہ گوادر اس کا زرخرید علاقہ ہے ، جس کا بلوچ قوم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تاریخی حقائق کے خلاف بیانیہ ہی گوادر کے گرد باڑ لگانے اور اسے بلوچستان سے الگ تھلگ کرکے وہاں داخلے اور رہائش کے لیے خصوصی پاس کے اجراء جیسے منصوبوں کی وجہ ہے۔ پاکستان کے سیکورٹی ادارے اپنی ناکامیوں کا بار شہریوں پر ڈالنا چاہتے ہیں۔

پانک کی طرف سے گوادر میں سرمایہ کاری کی خواہاں ممالک سے انسانی بنیاد پر اپیل کی گئی ہے کہ وہ اس تنازعے کو روکنے میں کردار ادا کریں تاکہ آنے والے دنوں میں انسانی بحران سے بچا جاسکے۔