جمعه, اکتوبر 11, 2024
Homeخبریںپاکستانی جیلوں میں عورتوں کے ساتھ انتہائی غلط ناروا اور سلوک رکھا...

پاکستانی جیلوں میں عورتوں کے ساتھ انتہائی غلط ناروا اور سلوک رکھا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل

لاہور(ہمگام نیوز) مانیٹرنگ نیوز ڈیسک رپورٹس کے مطابق لاہور ڈسٹرکٹ جیل کی ایک خاتون قیدی کی سوشل میڈیا پر ویڈیو نے پاکستان کے سماجی حلقوں میں ہلچل مچا دی ہے۔ کئی حلقوں میں خواتین کے ساتھ جیلوں میں ناروا سلوک پر بحث چھڑ گئی ہے۔

پاکستان ميں کچھ دنوں سے ایک خاتون قیدی کی ویڈیو مختلف واٹس اپ گروپوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر چل رہی ہے، جس میں مذکورہ خاتون نے الزام عائد کيا ہے کہ خواتین قیدیوں کا جنسی استحصال جاری ہے۔ انہوں نے دعویٰ کيا کہ خواتين قيديوں کو اعلیٰ افسران کی جنسی ہوس مٹانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خاتون نے ایک سینئر پولیس افسر کا نام لے کر بتایا کہ خواتین قیدیوں کو ان کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ خاتون قیدی نے وزیر اعظم عمران خان سے اپیل کی ہے کہ وہ فوری طور پر اس صورت حال کا نوٹس لیں۔

پولیس نے رد عمل ميں کہا ہے کہ یہ ویڈیو ایک سال پرانی ہے اور یہ کہ اس ویڈیو کو بنانے اور جاری کرنے والوں کا پتہ نہیں چل سکا ہے۔ آئی جی جیل خانہ جات پنجاب شاہد سلیم نے اس مسئلے پر اپنا موقف دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”اسے پولیس کو بدنام کرنے کے لیے اپ لوڈ کیا گيا تھا۔ اس وقت بھی ہم نے ایف آئی اے کے سائبر کرائم کو اطلاع دی تھی اور ان سے کہا تھا کہ یہ پتا چلایا جائے کہ کس نے اس کو اپ لوڈ کیا۔ لیکن کچھ پتہ نہیں چل سکا۔ ابھی پھر ہم نے متعلقہ حکام سے کہا ہے کہ وہ پتہ چلائيں کہ اس ویڈیوکوکس نے اپ لوڈ کیا ہے۔

فیصل آباد جیل میں ہيومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے منصوبے پر کام کرنے والی امینہ زمان کا کہنا ہے کہ جیل میں خواتین کے خلاف مار پیٹ ہوتی تھی لیکن جنسی استحصال کا کوئی واقعہ ان کے مشاہدے میں نہیں آیا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”فیصل آباد جیل کی حد تک میں کہہ سکتی ہو کہ یہاں پر خواتین وارڈز میں مردوں کا بھی داخلہ اتنا عام نہیں تھا، تو مجھے نہیں لگتا کہ اس خاتون قیدی کا جو دعویٰ ہے اس میں کوئی صداقت ہے۔‘‘

تاہم جیل میں وقت گزارنے والی خواتین اور مرد قیدی اس ویڈیو میں کیے گئے دعووں سے اتفاق کرتے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی اسلام آباد کی صدر شہزادہ کوثر گیلانی جو اپنی سیاسی جدوجہد کے دوران کئی مرتبہ جیل گئیں، اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ خواتین قیدیوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے۔ کوثر گیلانی پہلی مرتبہ اپنی والدہ کے ساتھ جیل مارشل لا کے دور میں گئی تھيں اور اس کے بعد انہیں متعدد بار سیاسی وجوہات کی بنیاد پر جیل جانا پڑا۔ کوثر گیلانی نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، تقریباً 21 سال پہلے جب میں اڈیالہ جیل میں تھی، تو وہاں دو سو سے زائد خواتین ایسی تھیں، جو منشیات اور دوسرے مقدمات میں سزائے کاٹ رہی تھیں۔ ان میں سے کئی خواتین خصوصاً خوبصورت خواتین کو بڑے افسران، با اثر قیدی اور باہر کے دوسرے طاقت ور لوگوں کو خوش کرنے کے ليے استعمال کیا جاتا تھا۔ ان میں سے زیادہ تر خواتین کا تعلق غریب گھرانوں سے تھا۔‘‘

ان کے بقول جن خواتین کو اس طرح استعمال کیا جاتا تھا، انہيں بعد ازاں جیل میں رعایات بھی دی جاتی تھيں۔”ایک خاتون قیدی نے تو یہاں تک مجھے بتایا کہ اس کو اس کے بھائی اور بھابھی سے ملاقات کے لیے باہر لے جایا جاتا تھا۔‘‘

کوثر گیلانی کا دعوی ہے کہ خواتین قیدیوں کو مارا پیٹا جاتا ہے اور جنسی استحصال پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ”خواتین پولیس اہلکار بھی اس میں ملوث ہوتی ہیں اور ان کی نگرانی میں ہی خواتین قیدیوں کو عیاش لوگوں کے پاس بھیجا جاتا ہے۔ جنسی استحصال کا شکار ہونے والی خواتین اپنی زبان نہیں کھولتيں کیوں کہ شکایت کرنے کی صورت میں ان کے ساتھ مزید ظلم و زیادتی کی جاتی تھی۔‘‘

فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سیکرٹری جنرل ناصر زیدی، جنہوں نے ملک کی مختلف جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، کا کہنا ہے کہ اس طرح کا دعوی غیر حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا، ”جیل کے عملے کا رویہ خواتین سیاسی کارکنان سے تھوڑا سا مختلف ہوتا تھا کیونکہ انہیں ڈر ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے سیاسی جماعتیں ہیں لیکن جو غریب اور بے سہارا خواتین چھوٹے موٹے جرائم میں جیل کے اندر ہوتی تھيں، ان کا اس دور میں بھی جنسی استحصال کیا جاتا تھا۔ سپاہی سے لے کر افسران تک سب اس گھناؤنے گیم میں شریک جرم تھے۔‘‘

کوثر گیلانی کا کہنا ہے کہ اس طرح کے واقعات کی روک تھام کے لیے بڑے پیمانے پر سی سی ٹی وی کیمرے خواتین وارڈز میں لگائے جائیں اور ان کی نگرانی پر ایماندار افسران کو متعین کیا جائے۔ ”اس کے علاوہ عدلیہ، انسانی حقوق کی تنظیموں اور غیر ملکی مبصرین کی طرف سے جیل کا غیر اعلانیہ دورہ ہونا چاہیے تاکہ پولیس پر احتساب کا ایک خوف ہو۔‘‘

کوثر گیلانی کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ بھی پولیس والوں کا رویہ خواتین کے ساتھ انتہائی ہتک آمیز ہوتا تھا۔ ”پولیس والے ملاقاتیوں سے رشوت لیتے تھے۔ جو کھانے کا سامان آتا تھا اس میں جو اچھا کھانا ہوتا تھا وہ رکھ لیا کرتے تھے، یہاں تک کہ کپڑے اور چپلیں بھی رکھ لیا کرتے تھے۔ اور اگر اس پر کوئی احتجاج کرتا، تو اس کو خوب مارا پیٹا جاتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے کسی مسئلے پر احتجاج کیا تو مجھے اڈیالہ جیل سے اٹک جیل میں لا کر بند کر دیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز