سه شنبه, دسمبر 24, 2024
Homeخبریںپاکستان آرمی کے ہاتھوں بلوچ طلبا سمیت مختلف شعبہ جات دانشور اغوا...

پاکستان آرمی کے ہاتھوں بلوچ طلبا سمیت مختلف شعبہ جات دانشور اغوا ہو چکے ہیں۔ بانک کریمہ

کنیڈا  (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی چیئرپرسن کریمہ بلوچ نے ایک انڈین نیوز ایجنسی کو اپنے انٹرویو میں کہا کہ بلوچستان میں آرمی کے اہلکار ا بلوچ اسٹوڈنٹس، ڈاکٹر،ٹیچرز اور بزرگوں سمیت زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہزاروں کی تعداد میں اٹھا کرغائب کرچکے ہیں۔بلوچستان میں لاپتہ افراد کے خاندان اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے آئے روز احتجاج کررہے ہیں۔ وہ مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے لاپتہ پیارے اگر کسی جرم میں شریک ہیں تو عدالتوں میں ثابت کرکے انہیں سزا دیا جائے لیکن اس کے باوجود فورسز لوگوں کو بغیر کسی عدالتی کاروائی کے قتل کرکے انہیں ویرانوں اور سڑکوں میں پھینک دیتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں کریمہ بلوچ نے کہا کہ انڈیا خود طویل عرصے تک ایک کالونی رہا ہے، جدوجہد کے بعد آج انڈیا دنیا میں سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر اپنا پہچان رکھتی ہے۔ انڈیا کے لوگ بہتر طور پر جانتے ہیں کہ قبضہ گیر جب کسی قوم کو اپنی کالونی بناتی ہے تو وہاں کے لوگوں کی حالت زار کیا ہوتی ہے۔بلوچستان کو بھی پاکستان نے جبراََ کالونی بنایا ہوا ہے اور یہاں کے لوگوں کا استحصال کررہی ہے۔ انڈیا سمیت ہم دنیا کے تمام مہذب ممالک و اداروں سے یہی امید رکھتے ہیں کہ وہ بلوچ آزادی کی تحریک کو سپورٹ کریں گے۔ کریمہ بلوچ نے کہا کہ ہم اپنی آزاد ی کے لئے لڑ رہے ہیں اور ہم حق پر ہیں اس لئے محدود وسائل و مشکلات کے باوجود بھی ہم اس تحریک کو جاری رکھ سکتے ہیں لیکن انڈیا سمیت دوسرے انسان دوست ممالک سے ہم یہی چاہتے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر بلوچستان میں جاری ریاستی دہشتگردی کے خلاف آواز اُٹھائیں ۔کریمہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان ہر فورم پر بلوچستان کے مسئلے کو اپنا اندرونی مسئلہ کہہ کر دنیا کو آواز اٹھانے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے، لیکن یہ بات تاریخی حوالے سے ثابت ہے کہ بلوچستان نہ کبھی برصغیر کا حصہ رہا ہے اور نہ ہی پاکستان کا ایک حصہ رہا ہے۔ پاکستان کی وجود میں آنے سے پہلے بلوچستان ایک الگ ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود تھا۔ پاکستان کے 70 سالوں کے مقابلے میں بلوچ اپنی سرزمین پر ہزاروں سالوں سے رہ رہے ہیں۔ پاکستان نے بلوچ شناخت کو پامال کرکے باالجبر بلوچ ریاست پر قبضہ کیا ہے جسے بلوچ نے کبھی قبول نہیں کیا ہے اور اپنے ریاست کی بحالی کے لئے شروع دن سے ہی لڑ رہے ہیں۔کوئٹہ میں ہونے والے حالیہ حملے کے متعلق سوال کے جواب میں بانک کریمہ بلوچ نے کہا کہ یہ حملہ بلوچ سماج کے تعلیم یافتہ طبقے کو راستے سے ہٹانے کی ریاستی پالیسی کا تسلسل ہے۔ہمارے اسکولوں کو آرمی نے اپنی چوکیوں میں بدلا ہوا ہے اور ہمارے معاشرے کی روایات کو مسخ کرنے کے لئے مدرسوں کا جال پھیلایا جارہا ہے۔ سی پیک کے متعلق کریمہ بلوچ نے کہا کہ یہ پراجیکٹ بلوچ عوام کی تباہی کا باعث بنے گا، سی پیک کی کامیابی کے بعد آنے والی خوشحالی کے نعروں کی حقیقت یہ ہے کہ گوادر کے مقامی لوگوں کے لئے پینے کا پانی تک میسر نہیں ہے۔ مقامی آبادی کو علاقوں سے نکل مکا نی پر مجبور کیا جا چکا ہے ۔ کریمہ بلوچ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہندوستان سمیت دوسرے جمہوریت پر یقین رکھنے والے ممالک کی زمہ داری ہے کہ وہ بلوچ مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھائیں کیوں کہ یہ پاکستان کا اندرونی مسئلہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز