واشنگٹن(ہمگام نیوز) امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی حالیہ رپورٹ میں یہ نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان بھی دنیا کے ان ملکوں میں شامل ہے، جہاں مذہبی آزادی کے حوالے سے بدترین صورتحال موجود ہے۔
تاہم اب تک امریکا نے پاکستان کو خصوصی تشویش کا حامل ملک قرار نہیں دیا۔ واضح رہے کہ ایسا درجہ دینے کی صورت میں پاکستان پر اقتصادی پابندیاں عائد ہوسکتی تھیں۔
پاکستان کے بارے میں اس رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ ملک طویل عرصے سے فرقہ وارانہ تشدد سے دوچار رہا ہے، جس میں شیعہ، مسیحیوں، احمدیوں اور ہندوؤں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔
’’سپریم کورٹ کے مثبت فیصلے کے باوجود حکومت نشانہ بننے والے گروہوں کو مناسب تحفظ فراہم کرنے میں یا مجرموں اور ان لوگوں کو جو تشدد کی ترغیب دیتے ہیں، کے خلاف قانونی کارروائی میں ناکام رہی ہے۔‘‘
رپورٹ میں پاکستان کے ’’توہین کے جبری قوانین اور احمدی مخالف قوانین‘‘ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’’ان کی وجہ سے مذہبی آزادیوں کی خلاف ورزی اور سزا سے مستثنیٰ ماحول کو فروغ مل رہا ہے۔‘‘
امریکی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ توہین کے قوانین ’’مذہبی اقلیتی برادریوں کے افراد اور اختلافِ رائے رکھنے والے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘
شیعہ برادری پر رپورٹ میں شامل ایک حصے میں بیان کیا گیا ہے کہ 2014ء کے دوران عسکریت پسندوں اور دہشت گرد تنظیموں نے مذہبی جلوسوں اور مساجد کے ساتھ ساتھ سماجی اجتماع کے مقامات کو نشانہ بنانے کا سلسلہ بے خوفی کے ساتھ جاری رکھا۔
رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ پولیس اگر اس موقع پر موجود بھی ہوتی ہے تو وہ حملہ آوروں کو لوگوں کو ہلاک کرنے سے روکنے میں ناکام رہتی ہے، اور حکومت نے شیعہ برادری کے افراد کو متواتر نشانہ بنانے والے گروہوں کے خلاف کارروائی نہیں کی ہے۔
اس کے مطابق حکومت لشکرِ جھنگوی کے رہنما کے خلاف کامیاب قانونی کارروائی نہیں کی، جنہیں مبینہ طور پر ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے اکثر رہا کردیا گیا۔
رپورٹ میں مسیحی اور ہندو لڑکیوں اور نوجوان خواتین کو جبری طور پر اسلام قبول کروانے اور ان کو شادی پر مجبور کرنے کا بھی ذکر کیا ہے۔