لندن ( ہمگام نیوز ) تجزیہ کاروں نے کہنا ہے کہ روس کی کرائے کی ملیشیا واگنر کے فوجی سربراہ یوگینی پریگوژن کی ایک طیارہ حادثے میں ہلاکت ممکنہ طور پر روسی صدر ولادی میر پوتین سے ’’بے وفائی کے انتقام‘‘ کا شاخسانہ ہوسکتی ہے اور یہ ان کے خلاف بغاوت کے بارے میں سوچنے والے کسی بھی شخص کے لیے ایک محتاط کہانی ہے۔
طیارہ حادثہ قتل کی سازش ہونے کا کتنا امکان ؟
تجزیہ کاروں نے بتایا کہ مروجہ نظریہ یہ ہے کہ پریگوژن کا حادثہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا، اور اگر اسے ایک حادثہ بھی قرار دیا جائے تو بھی اسے قتل کی کوشش سمجھا جائے گا۔اسے ممکنہ طور پر صدر پوتین نے تیار کیا تھا۔
اطلانتک کونسل میں سکیورٹی ریسرچ کے ریذیڈنٹ فیلو رسلان ٹریڈ کا کہنا ہے کہ’’اب تک کی اہم تھیوری یہ ہے کہ طیارے کو اس وقت مار گرایا گیا جب ماسکو کے نزدیک تفیرریجن میں ایئر ڈیفنس سسٹم کو فعال کیا گیا تھا۔ یہ واضح نہیں کہ یہ کیوں فعال کیا گیا تھا۔ویسے بھی طیارہ کسی فنی خرابی کی وجہ سے نیچے نہیں گرا۔
واگنر، گرے زون سے وابستہ ٹیلی گرام چینل نے خبر دی ہے کہ پریگوژن ایک طیارہ حادثے میں ہلاک ہوئے ہیں اور اس طیارے کو روسی وزارت دفاع نے تفیر کے علاقے میں فضا میں ’’مار گرایا‘‘ تھا۔
واگنر سے وابستہ ٹیلی گرام چینل نے بدھ کے روز خبر دی تھی کہ کرائے کی ملیشیا کے فوجی سربراہ یوگینی پریگوژن طیارہ حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔
گرے زون چینل کی ایک پوسٹ میں کہا گیا کہ ’’واگنر گروپ کے سربراہ، روس کے ہیرو،مادرِ وطن کے سچے محب وطن یوگینی وکٹوروفچ پریگوژن روس کے غداروں کے اقدامات کے نتیجے میں ہلاک ہو گئے ہیں‘‘۔
کریملن نے ابھی تک طیارہ حادثے یا پریگوژن کی قسمت کے بارے میں کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا ہے۔صرف یہ اعلان کیا گیا تھا کہ روس کی وفاقی ایجنسی برائے فضائی ٹرانسپورٹ نے حادثے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
مرکز برائے یورپی پالیسی تجزیات (سی ای پی اے) کے جمہوریت فیلو ایوان فومین کا کہنا ہے:’’اس بات کا امکان ہے کہ طیارہ حادثہ صدر پوتین کی جانب سےقاتلانہ کوشش کا نتیجہ ہے۔ خاص طور پر روسی رہ نما سے بے وفائی کے حوالے سے خصوصی حساسیت کے پیش نظر یہی توقع کی جا سکتی ہے۔ درحقیقت، یہ زیادہ حیرت کی بات ہوتی اگر پریگوژن کو،ان کی بغاوت کے بعد، بدستور زندہ رہنے کی اجازت دے دی جاتی۔
پریگوژن کی بغاوت نے روس کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر بھی زبردست اثر ڈالا۔ بین الاقوامی سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کے درمیان عام اتفاق رائے یہ ہے کہ واگنر ملیشیا کی بغاوت نے صدر پوتین کو کمزور کر دیا ہے اور ایک ایسے نازک وقت میں جب ان کی افواج کو یوکرین میں شدید جوابی کارروائی کا سامنا ہے،ان کی آہنی ہاتھوں سے حکمرانی کے بارے میں سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
روس کی خارجہ پالیسی کے ماہر اور اطلانتک کونسل میں نان ریزیڈنٹ سینیر فیلو مارک این کاٹز کا کہنا ہے کہ ’’یہ واقعی ایک حادثہ تھا یا نہیں، روس سمیت بہت سے لوگوں کو یقین ہے کہ پریگوژن کے طیارے پر جان بوجھ کر حملہ کیا گیا یا کسی طرح اسے تخریب کاری کا نشانہ بنایا گیا‘‘۔
جان ہاپکنزیونیورسٹی میں اسکول آف ایڈوانسڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کینتھ ایچ کیلر ایسوسی ایٹ پروفیسر یوجین فنکل کی رائے میں:’’اگر یہ حادثہ بھی ہو تو بھی اسے قتل سمجھا جائے گا جس کے ذریعے یہ بھی قیاس آرائیوں کا معاملہ ہے لیکن ایک بار پھر یہ تاثر ہے کہ اس کے پیچھے صدر ولادی میر پوتین کا ہاتھ کارفرما ہوسکتا ہے‘‘۔
طیارہ حادثے کا یقینی طور پر ذمہ دار کون ہے، کاٹز نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ یہ مشکوک ہے کہ مکمل کہانی جلد ہی سامنے آئے گی، یا بالکل بھی نہیں۔ تاہم، انھوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ “پوتین، روسی وزیر دفاع سرگئی شوئیگو، اور روسی چیف آف جنرل اسٹاف آرمی جنرل ویلری گیراسیموف سب کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ پریگوژن کو ہلاک کرنے کا مقصد، موقع اور ذرائع رکھتے ہیں۔شاید روسی سکیورٹی سروسز نے بھی زیادہ وسیع پیمانے پر ایسا کیا۔
پریگوژن کی موت سے کس کو فائدہ ہوگا؟
اس بات سے قطع نظر کہ آیا پوتین براہِ راست پریگوژن کے حادثے کے پیچھے تھے لیکن روسی صدر کو واگنر چیف کی موت سے فائدہ ضرور ہوگا۔
فومین نے کہا:’’پریگوژن کی موت، یا یہ حقیقت کہ ہر کوئی یقین کرے گا کہ وہ مر چکے ہیں،پوتین کے لیے اس لحاظ سے فائدہ مند ہے کہ وہ بے وفائی کا بدلہ لینے کی ناگزیریت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔اس طرح، وہ اس امکان کو کم کردینا چاہتے ہیں کہ پریگوژن جیسی بغاوتیں دوبارہ برپا نہ ہوں‘‘۔
کاٹز نے اس بات سے اتفاق کیا: “پوتین کو پریگوژن کی موت سے فائدہ ہوا ہے۔ چونکہ روسی خاص طور پر اسے جان بوجھ کر دیکھنے جا رہے ہیں ، لہٰذا پریگوژن کی موت ایک انتباہ کے طور پر کام کر سکتی ہے کہ پوتین کی سنجیدگی سے مخالفت کرنا کسی کی صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ لہٰذا جو کوئی اور یہ سوچ رہا ہے کہ وہ بغاوت کر سکتا ہے، تو اسے ہوشیار رہنا چاہیے‘‘۔
ٹریڈ نے کہا:’’پوتین نے بلاشبہ پریگوژن کو معاف نہیں کیا ہے، اور سزا ملنے میں صرف وقت کی بات تھی۔ لیکن فی الحال ہم یہ نہیں کَہ سکتے کہ طیارہ گرانے کے پیچھے کون تھا۔ تاہم روس میں کسی اہم شخصیت کو ہٹانے کا یہ پہلا معاملہ نہیں ہوگا جو خطرہ بن گیا ہے‘‘۔
فنکل کا کہنا تھا کہ ’’ٹھیک دو ماہ قبل پریگوژن نے ایک بغاوت کا آغاز کیا تھا جس سے صدر پوتین کی سبکی ہوئی تھی اور اس کے بعد سے انھیں ایک کمزور شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ پریگوژن کو ہلاک کرنے سے روسی صدر کا امیج مکمل طور پر بحال نہیں ہوگا لیکن کم از کم یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ کوئی اور پریگوژن ایک نئی بغاوت نہیں کرے گا۔
واگنر گروپ کے ساتھ اب کیا ہو گا؟
کاٹز نے کہا: ’’واگنر کو زیادہ براہ راست روسی وزارت دفاع کے کنٹرول میں لایا جائے گا۔اس کی یوکرین میں کام کرنے والی واگنر فورسز پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش ہی نے بغاوت کو جنم دیا تھا‘‘۔
تاہم، فومین نے سوال اٹھایا کہ کیا پوتین پریگوژن کی غیرموجودگی میں گروپ پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں،’’یہ واضح نہیں کہ پوتین ان کی موجودگی کے بغیر کس حد تک پریگوژن کے کرائے کے فوجیوں کو مؤثر طریقے سے کنٹرول کرنے کے قابل ہوں گے۔
فنکل نے نشان دہی کی کہ طیارے میں واگنر گروپ کمانڈر دمتری اتکن بھی سوار تھے جس سے گروپ کے کمانڈ ڈھانچے میں ایک بڑا خلا پیدا ہوا۔ٹریڈ نے اتفاق کیا:’’واگنرگروپ روسی خارجہ پالیسی کا ایک لازمی آلہ کار رہے گا۔تاہم پریگوژن اور واگنر کے بانی اتکن کی موت،ملیشیاکی سرگرمی اور یونٹ کی عوامی حیثیت پر اثرات مرتب کرے گی‘‘۔