سه شنبه, اکتوبر 22, 2024
Homeآرٹیکلزپشتونوں کا سلگتا آتش فشاں اور بلوچ تحریک ، تحریر : شے...

پشتونوں کا سلگتا آتش فشاں اور بلوچ تحریک ، تحریر : شے بجار

پشتون تحفظ موومنٹ کے چھبیس سالہ نوجوان لیڈر منظور پشتین کی قیادت میں پشتون تحریک طوفانی رفتار لیئے جاری ہے۔ فروری میں اسلام آباد کوئٹہ لاہور پشاور اور اب کراچی میں عوامی اجتماعات کا انعقاد کرکے پشتون قوم نے اپنی بکھری ہوئی طاقت کو یکجا کرنے کا بھر پور مظاہرہ کیا۔نوجوان لیڈر منظور احمد پشتین کا تعلق جنگ سے متاثرہ جنوبی وزیرستان سے ہے جہاں دو ہزار تین سے پاکستان اپنے بیرونی آقاؤں کو خوش کرنے کیلئے پاکستانی آرمی آپریشن کے نام پر جارحیت سے بدامنی کو مزید پروان چڑھا رہا ہے۔
چونکہ تعلیم یافتہ گھرانے میں پیدا ہونے کی وجہ سے منظور کو سیاست ورثے میں ملی ہے۔ منظور کے والد محترم ایک اسکول ٹیچر ہیں جنکی کوششوں کی مرہون منت سے آج ایک اکیلا منظور حق و صداقت عوامی کاروان کے ساتھ ریاست پاکستان کیلئے درد سر بن گیا ہے۔ منظور کی تحریک 2014 کو محسود تحفظ موومنٹ کے نام سے شروع ہوئی تھی جو علاقاہی مسائل پر مقامی سطح پر چھوٹے احتجاج کیا کرتے تھے۔ جونہی کراچی میں ایک پشتون نوجوان نقیب اللہ محسود کو جعلی پولیس مقابلے میں مارا گیا تو پختون تحریک میں اس مسئلے نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا ۔ رواں سال فروری میں اسلام آباد میں پشتون تحفظ موومنٹ کے دس روزہ احتجاجی مظاہروں نے پشتون قوم میں شعور کی ایک نہی لہر پیدا کر دی۔ پاکستانی جانبدار میڈیا پشتون تحفظ موومنٹ کے احتجاجی پروگرام کو یکسر نظر انداز کردیا ۔ مگر پشتون رہنما اور اس کے نوجوان ساتھی سوشل میڈیا لائیو اور باقی ذرائع سے اس تحریک کو عوام میں مقبول بنانے کیلئے سوشل میڈیا کا بہتر استعمال کررہے ہیں۔ سوشل میڈیا واحد مواصلاتی نظام ہے جو عام شہری کی پہنچ میں ہے جسکو بروئے کار لاکر پشتون لیڈرشپ اپنے میسج کو گلی،گلی کوچہ، کوچہ محکوم پشتونوں تک پہنچا رہے ہیں۔ قابل غور نقطہ یہ ہے کہ آخر وہ کون سے وجوہات تھے کہ ایک اسکول ٹیچر کا بیٹا جوش جوانی میں ایک ایسے ریاست میں تحریک چلانے نکل پڑا جہاں دہائیوں سے آباد پشتون کے ساتھ ساتھ دوسرے قومیتوں پر بھی ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے تھے۔ آخر کیوں منظور کو یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ وہ شہر بہ شہر جاکر عوامی اجتماعات کا انعقاد کرے۔ یقینا پشتون قوم کے ریاست خدائےداد سے جو توقعات تھے وہ ریتیلی پہاڑ کی مانند کمزور ہوکر گر رہے ہیں۔ قبائلی علاقوں بالخصوص خیبر ایجنسی میں پختون قوم پر اتنے ظلم اور نا انصافیاں ڈھائے گئے جنکی اس خطے میں مثال نہیں ملتی۔ پشتون عوام کا ابھرتا ہوا سیلاب خود ریاست کی جانب سے کیے گئے ظلمتوں کی گوائی دے رہا ہے۔ گزشتہ اٹھارہ سالوں سے آپریشن در آپریشن کے نام پر پشتون چادر و چار دیواریوں کی پامالی اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ اپنے قانون نافذ کرنے والی اداروں کی گرتی ہوئی ساکھ کو بچانے کیلئے بلوچ نوجوانوں سمیت ہزاروں بیگناہ پشتون نوجوانوں کا جعلی انکاؤنٹر کیا گیا اور انہیں ‘ را ‘ اور ‘این ڈی ایس ‘ سے جوڑا گیا۔ اسکی تازہ مثال کراچی میں دماغی مریض چاکر بلوچ اور نقیب اللہ محسود کا جعلی پولیس مقابلے میں قتل تھا۔ خود کو غیر جانبدار میڈیا کرار دینے والے پاکستانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا دہشت گرد پاکستانی فوج کے بیانیے کو خوب سپورٹ کر رہے ہیں مگر پشتون بلوچ مشترکہ سوشل میڈیا کمپئین نے ریاست اور ان کے پالے ہوئے پنجابی میڈیا کے مکروہ چہرے کو بری طرح بے نقاب کر دیا۔ چونکہ ہم بلوچ ان تجربات سے گزر چکے ہیں بنیادی مراحل طے کرکے ہم اب ایک فیصلہ کن دور سے گزر رہے ہیں مگر پشتون تحریک ابھی تک اپنے بنیادی مرحلہ سے گزر رہی ہے اور آگے چل کر انہیں بھر پور چیلنجز کا سامنا کرنا پڑیگا اسی لیے پشتون قوم دوستوں کو چائیے کہ پہلے ہی سےآنے والے چیلنجز کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کیلئے ذہنی حوالے سے تیار رہیں کیونکہ پشتون قوم آج ایک ایسی ریاست سے نبرد آزما ہیں جو انسانی اور مذہبی اقدار و اخلاقیات سے مکمل نا واقف ہے۔ جو جوش اور جزبہ آج پشتونوں میں دکھاہی دے رہا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ شعوری اور نظریاتی لگاؤ کم جذباتیت ان میں ذیادہ سرایت کر گیا ہے۔ تو پشتون لیڈرشپ بالخصوص منظور احمد پشتین کا فرض بنتا ہے کہ پشتون نوجوانوں کی فکری تربیت میں ذیادہ سے ذیادہ وقت صرف کریں۔ پشتون تعلیم یافتہ نوجوان مستقبل قریب میں ریاستی حدف ہوسکتے ہیں اور تحریک کو ختم کرنے کیلئے نوجوان طبقہ کو ریاستی ذہنی اور جسمانی عقوبت خانوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہیں۔ جس طرح بلوچ نوجوانوں کو ریاستی خفیہ اداروں کی جانب سے حدف کا نشانہ بنایا گیا یہی کھیل پشتونوں کے ساتھ بھی کھیلا جا سکتا یے۔ بلوچ لیڈران گزشتہ کئی تجربات سے سیکھ کر اپنے جہد کو دنیا کے کونے کونے میں پہنچا چکے ہیں اور سیاسی اور جنگی اصولوں پر پشتونوں کی نسبت تھوڑا ذیادہ تجربہ رکھتے ہیں لہذا پشتون لیڈر شپ کو چائیے اپنے جائز مطالبات پر سختی سے ڈٹ کر بلوچ لیڈر شپ کے ساتھ ملکر اشتراکی بنیادوں پر منزل کی جانب بڑھیں کیونکہ محکوم قوموں کے دکھ اور درد مشترک ہوتے ہیں۔ اور ریاست پاکستان سے جو توقعات اب تک پشتون قوم نے رکھے ہوئے ہیں ان میں مایوسی کے سوا اور کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا لہذا اپنے مطالبات کو مسنگ پرسنز سے منسلک کرکے وسیع آذاد پشتونستان کے ون پوائنٹ ایجنڈے کو سامنے لائیں کیونکہ اسی میں پشتون کی قومی شناخت ممکن ہے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز