کوئٹہ(ہمگام نیوز)بلوچ ریپبلکن پارٹی کے خواتین ارکان نے آج کوئٹہ پریس کلب میں میڈیا کے نمائدوں کو بلوچستان میں ریاستی فورسز کی حالیہ کشت خون خاص کر قلات، پنجگور اور ڈیرہ بگٹی میں ریاستی فورسز کی بربریت کے حوالے سے آگاہ کیا ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستانی افواج نے بلوچستان بھر میں اپنے فوجی کاروائیوں میں اضافہ کیا ہے پنجگور ڈیرہ بگٹی اور قلات میں گزشتہ دنوں ریاستی بربریت کی نئی مثالیں قائم کی گئی ہیں قلات میں جس انداز سے پاکستان فوج نے خون کی ہولی کھیلی ہے اس کی نظیر تاریغ میں نہیں ملتی ہے پاکستانی فورسز نے قلات کے علاقے جوہان اور آس پاس کے علاقوں کو گھیر کر سیکنڑوں دہیات جلا کر خاکستر کیئے جبکہ 35 سے زائد افراد کو شہید اور200 کے قریب لوگوں کو آٹھا کر لے گئے ہیں شہید کیئے جانے والے تمام افراد نرمک کے رہائشی ہیں اور تمام مالدار لوگ تھے جو پہلے خوشک سالی کی وجہ سے جوہان میں رہائش پزیر تھے اور اب بارشوں کے بعد نرمک کی طرف جارہے تھے کہ انھہیں فوجی اہلکاروں نے روکا اور سب کو لائن میں کھڑا کر کے انٹرنیشنل مزہبی شدد پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے طرز پر تمام افراد کو گولیوں سے بھونڈ ڈالا گیا۔ جن میں بزرگ حاجی وارث لہڑی، پکار خان، سبز علی، حاجی پیروز لہڑی ، چاکر لہڑی اور خیر جان جتک کے لاشوں کی شناخت ہو سکی ہے جبکہ دیگر افراد کو فوری طور پر ریاستی ادروں نے دفن کروادیا ہے۔ اس کے علاوہ پنجگور میں پل آباد کے مقام پر پاکستانی فوج کی آشیر باد میں چلنے والے ڈیتھ سکواڈ کے کارندوں نے نیم بلوچ کے گھر میں گھر کر وہاں موجود تمام لوگوں پر اندھا دھند گولیاں برسا کر گھر میں موجود تمام سات افراد کو شہید کردیا ہےجن میں ایک خاتون اور دو بچیاں بھی شامل ہیں اسی طرح ڈیرہ بگٹی کے علاقے پٹ فیڈر میں بھی فوجی اہلکاروں نے ایک گھر پر بلا اشتعال فائرنگ کی اور راکٹ برسائے جس کے نتیجے میں حصو بگٹی اپنے اہلیہ، اور دو بچیوں کے ساتھ شہید ہوگئے۔ جبکہ گذشتہ روز ڈیرہ بگٹی میں آپریشن کا دائرہ کار وسیع کردیا گیا اور اسے پیر کوہ تک پھیلا دیا گیا ہے اور ہماری اطلاعات کے مطابق اس آپریشن میں گن شپ ہیلی کاپٹر اور جنگی طیارے بھی حصہ لے رہے ہیں اور عام آبادیوں اور دہاتوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ مزکورہ علاقے اب تک فورسز کے گھیرے میں ہے اس لیئے نقصانات کے بارے میں درست معلومات نہیں مل سکی ہےگزشتہ دس سالوں سے سرفراز اور اس جیسے ریاستی کٹ پتلیا دعواع کرتے رہے ہیں کہ بلوچ سرمچار ہتھیار ڈال رہے ہیں بلکہ مشرف نے ڈائے ڈائے قوم نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کرنے کے بعد علان کیا تھا کہ اب سب ٹھیک ہے سب کو ختم کردیا گیا ہے یہ تمام باتیں مشرف کے بعد بھی اقدار میں آنے والے پنجابی حکمران کرتے رہے ہیں کہ اتنے سرمچاروں نے ہتھیار ڈال دیئے پھر دوسری طرف کہتے ہیں کہ کچھ مٹھی بھر لوگ ہے جو آزادی کی بات کرتے ہیں۔ اگر حکومتی دعوؤں کو دیکھا جائے تو اب تک لاکھوں افراد نے سرکار کے سامنے ہتھیار پھنک دیئے ہیں اور بلوچستان کی آدھی آبادی سرمچار تھے لیکن یہ مٹھی بھر لوگ ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ حقیقت تو یہ کہ بلوچ ایک قوم ہے اور پاکستان سے مکمل آزادی چاہتے ہیں ریاست پاکستان اگر سمجھتی ہے کہ وہ اس طرح کے قتل و غارت گری سے لوگوں کو ختم کرسکتی ہے اور لوگ اپنے مقصد سے پیچھے ہٹے گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ ہمیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی مسلسل خاموشی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی ریاستی ایجنڈے پر عمل پیرا ہے مگر ہم اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے عالمی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پاکستانی ریاست کی بلوچستان میں سنگین جنگی جرائم کے مسلسل ارتکاب کا نوٹس لے اور اپنی انسانی جانوں سے کھلنے والے ریاست کے خلاف ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ میں آپ تمام بھائیوں کا شکریہ ادا کرتی ہو جنھوں نے ہم مظلوم قوم کے آواز کو سنا امید ہے آپ حضرات خوب بھی ایمانداری سے اپنی صحافتی زمہ داریاں پوری کرتے ہوئے بجائے ریاستی اداروں کے خبروں کے انحصار کہ خود اپنے زرائع سے حالات کا جائزہ لے گے۔