سه شنبه, اکتوبر 8, 2024
Homeخبریںچین:کےجیلوں میں اویغور مسلمانوں کے 10لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا...

چین:کےجیلوں میں اویغور مسلمانوں کے 10لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے،؛ہیومن رائٹس واچ رپورٹ

سنکیانگ (ہمگام نیوز ڈیسک )چین میں اویغور مسلم اقلیتی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد کو جنگی قیدیوں کے کیمپ میں رکھا گیا ہے۔ اگست میں اقوام متحدہ کی کمیٹی کو معلوم ہوا کہ چین کے مغربی علاقے سنکیانگ میں اویغور مسلمانوں اور دیگر مسلم فرقوں کے دس لاکھ افراد کو حراست میں رکھا گیا ہے اور ان کی ‘ری ایجوکیشن’ یعنی ازِسر نو تعلیمی پروگرام کے تحت ان کی تربیت کی جا رہی ہے۔چین کی جانب سے بعض مسلم اقلیتی فرقوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف تنقید میں اضافہ ہوا ہے۔ دریں اثناء سنکیانگ میں رہنے والے افراد کے خلاف جابرانہ نگرانی کے واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔یہ نسلی طور پر ترکی النسل مسلمان ہیں اور یہ چین کے مغربی علاقے میں آباد ہیں جہاں ان کی تعداد تقریباً ایک کروڑ دس لاکھ ہے۔ وہ خود کو ثقافتی اور نسلی طور پر وسط ایشیائی علاقوں سے قریب تر بتاتے ہیں، ان کی زبان ترکی زبان سے بہت حد تک مماثلت رکھتی ہے۔ لیکن حالیہ دہائیوں میں سنکیانگ میں ہان چین کی اکثریتی نسل چینیوں کی بڑی تعداد میں آبادی وہاں منتقل ہوئی ہے اور اویغوروں کو ان سے اقلیت میں بدلنے کا خطرہ لاحق ہے۔اس کی سرحدیں بہت سے ممالک سے ملتی ہیں جن میں انڈیا،افغانستان،پاکستان اور منگولیا شامل ہیں۔سنکیانگیہ چین کے انتہائی مغرب میں واقع ایک بڑا صوبہ ہے اور یہ ملک کا سب سے بڑا علاقہ ہے۔ تبت کی طرح یہ ایک خودمختار علاقہ ہے اور بیجنگ سے علیحدہ اس کی اپنی حکومت ہے۔ لیکن عملی طور پر مرکزی حکومت کی جانب سے اس پر بہت زیادہ پابندیاں عائد ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ اویغور نسل کے لوگوں کو شدید نگرانی کا سامنا ہے اور انھیں اپنے ڈی این اے اور بائیومیٹرکس کے نمونے دینے پڑ رہے ہیں۔ وہاں آباد جن لوگوں کے رشتہ دار انڈونیشیا، قازقستان اور ترکی جیسے 26 ‘حساس’ ممالک میں ہیں انھیں مبینہ طور پر حراست میں لیا جا رہا ہے اور تقریباً دس لاکھ افراد کو ابھی تک حراست میں لیا جا چکا ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ انھیں وہاں چینی زبان سکھائی جا رہی ہے اور انھیں اپنے مذہب کو ترک کرنے یا ان کی تقلید کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ ان سے صدر شی جن پنگ کے ساتھ وفاداری کی قسمیں بھی کھلائی جا رہی ہیں۔ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ وہاں آباد جس کسی شخص نے رابطے کیلئے ملک سے باہر واٹس ایپ پر اگر کسی سے رابطہ کیا ہے تو اسے بھی حراست میں لیا جا رہا ہے۔چین کے بعض سابق قیدیوں نے بتایا کہ انھیں کیمپوں میں جسمانی اور نفسیاتی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ انھوں نے بتایا ہے کہ کنبے کے کنبے لاپتہ ہوگئے ہیں اور ہمیں یہ بھی بتایا گيا کہ انھیں جسمانی اور ذہنی طور پر تشدد کا نشانہ بنایا گيا ہے.ایک دوسرے شخص عزت نے بتایا رات کے کھانے کا وقت تھا۔ تقریباً 1200 افراد ہاتھوں میں پلاسٹک کا خالی کٹورا لیے کھڑے تھے،چینی سرکاری فورسز نے انھیں کہا وہ چین کے حق میں گیت گانا گاہے تاکہ انھیں کھانا ملے۔ وہ روبوٹ کی طرح تھے۔ ان کی روحیں مر چکی تھیں ۔ وہ سب ایک ساتھ اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے تھے۔ لیکن اب وہ اس طرح کا برتاؤ کر رہے تھے جیسے کسی کار حادثے کے بعد ان کی یادداشت جاتی رہی ہو۔ایک شخص عمر نے بتایا:’وہ ہمیں سونے نہیں دیتے تھے، وہ ہمیں گھنٹوں لٹکائے رکھتے اور پیٹتے رہتے۔ ان کے پاس لکڑی کے موٹے ، موٹے ڈنڈے اور چمڑے کے سوٹے تھے جبکہ تاروں کو موڑ کر انھوں نے کوڑے بنا رکھے تھے، جسم میں چبھونے کے لیے سوئیاں اور ناخن کھینچنے کے لیے پلاس تھے۔ یہ سب چیزیں میز پر ہمارے سامنے رکھی ہوتیں اور ان کا ہم پر کبھی بھی استعمال کیا جاسکتا تھا ۔چائنیز فورسز کے ٹارچر سیلوں میں ہم ایک دوسرے لوگوں کی درد ناک چیخیں بھی سنتے ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز