سه شنبه, اکتوبر 8, 2024
Homeخبریںڈاکٹر دین محمد بلوچ کی اغواء کے 11 سال مکمل ہونے پر...

ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی اغواء کے 11 سال مکمل ہونے پر آج کوئٹہ میں احتجاج

 

کوئٹہ (ہمگام نیوز) ڈاکٹر دین محمد کی جبری اغواء کے 11 سال مکمل ہونے پر آج جبری اغواء کے شکار افراد کے اہل خانہ کی جانب سے احتجاجی ریلی نکالی گئی جس کے بعد کوئٹہ پریس کلب کے سامنے بھی احتجاج ریکارڈ کیا گیا۔

وائس فار بلوچ مِسنگ پرسنز کی جانب سے ڈاکٹر دین محمد بلوچ کے لواحقین کے ساتھ ان کی اغواء کے 11 سال مکمل ہونے پر احتجاج کا اعلان کیا گیا تھا جہاں انتہائی رکت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔

آج کے احتجاج میں تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے حصہ لیا۔ احتجاج میں خواتین اور بچوں کی ایک بڑی تعداد شریک تھی۔ مظاہرین نے جبری اغواء کے شکار افراد کی تصاویر کے ساتھ بینرز اور پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے۔

مظاہرین سے جبری اغواء کے شکار افراد کے لواحقین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے ساتھ ساتھ ریاست کی اپنی آئین میں جبری گُمشدگی ایک جرم ہے مگر بلوچ قوم کے ساتھ یہ جُرم اور غیر انسانی عمل پچھلے کئی دہائیوں سے جاری ہے مگر بلوچستان میں آکر نہ عالمی قوانین لاگو ہوتی ہیں اور نہ ہی ریاست اپنے قانون لاگو کرتی ہے بلکہ ایک کرب، درد، تکلیف اور ظلم کے سائے تلے بلوچستان باسی اپنی زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔

جبری اغواء کے شکار ڈاکٹر دین محمد بلوچ کی بیٹی سمی بلوچ نے جذبات سے بھرپور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں یہ نہ ختم ہونے والا جبر شائد ہماری بے حسی، لاتعلقی اور بیگانگی کی وجہ سے بغیر کسی روک ٹوک کے جاری ہے کیونکہ اگر ہم آج سے 19 سال قبل اغواء ہونے والے علی اصغر بنگلزئی کے لئے آواز اٹھاتے تو شائد ذاکر جان اور ڈاکٹر دین محمد یوں 9 سال تک اذیتوں کے شکار نہ بنتے مگر ہماری ہی بیگانگی نے ہمارے کئی پیاروں کو تشدد کی بند تاریک کوٹھڑیوں میں دھکیلا ہے۔ اس کے بعد تو یہ رواج بن گیا ہے کہ ریاست کسی کو بھی جب چاہے جیسے چاہے اٹھا کر غائب کردے، سالوں اس کو لاپتہ رکھ کر تشدد کا نشانہ بنائے اور جواب دہ بھی نہ رہے۔

سمی بلوچ نے مزید کہا کہ ڈاکٹر دین محمد سمیت تمام اسیران کو لاپتہ نہ کہا جائے کیونکہ وہ لاپتہ نہیں ہیں۔ ان کا پتہ ہمیں معلوم ہے کہ وہ کلی کیمپ سمیت دیگر اذیت گاہوں میں ہیں جہاں انہیں شدید جسمانی و ذہنی تشدد کا شکار بنایا جارہا ہے۔

 

مظاہرین سے حسیبہ قمبرانی نے خطاب کیا اور کہا کہ جب تک ہم آواز نہیں اٹھاتے ہمیں انصاف تک نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے ریاستی اداروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے پہلے میرے بڑے بھائی کو اغواء کیا، اس کو تشدد کا نشانہ بنایا میں خاموش رہی کہ دنیا میں شائد انصاف ہے اور وہ انصاف شائد بدقسمت بلوچوں کے لئے بھی دستیاب ہے مگر نتیجتاً مجھے اپنے بھائی کی مسخ شُدہ لاش موصول ہوئی۔ اگر آج میں سراپا احتجاج ہوں تو اس کی وجہ تم ہو۔ تم نے مجھے اس مقام پر لاکھڑا کردیا ہے جہاں اگر میں اس وقت اتنی طاقت ور نہیں کہ تم سے لڑ کر تمہارے غیر فطری مظبوط پنجوں سے اپنے بھائیوں کو چھڑا کر آزاد کروا سکوں مگر میں ساری دنیا کو بتانے کے لئے ایک آواز رکھتی ہوں اور میری قوم میرے ساتھ ملکر اس آواز کو مزید توانائی بخشے گی اور یہ آواز تمہارے ایوانوں کو ضرور ہلائے گی۔

حسیبہ قمبرانی نے مزید کہا کہ تم ظالم اور جابر ہو۔ تمہیں بس ظلم و جبر کرنا آتا ہے اور اُسی کا سہارہ لیکر تم ہماری دنیا کو تاریک بنا رہے ہو۔ تم نے ہم سے ہماری خوشیاں چھین لی ہیں۔ تم نے ہم سے ہمارا جینے کا سہارا چھینا ہے۔ تم نے ہم سے ہمارے سر کے سائے کو چھین لیا ہے اور پھر یہ توقع رکھتے ہو کہ ہم خاموش رہیں؟ ہم چیخ چیخ کر دنیا کو تمہارے مظالم کی داستانیں سنائیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کسی کی اگر کوئی چھوٹی سی چیز بھی گُم ہوجائے تو وہ بے چین و بے قرار پاگلوں کی طرح اس کو ڈھونڈتا ہے، گلاس کرتا ہے تمہیں اندازہ بھی ہے کہ تم نے ہمارے لخت جگر پیاروں کو ہم سے جُدا کردیا ہے، اس کے باوجود ہمارے رونے پر بھی پابندی ہے۔

شبیر بلوچ کی بہن سیما بلوچ نے کہا کہ اگر ہمارے پیاروں کو شہید کیا جاچُکا ہے تو ہمیں بتادیا جائے اور اگر وہ زندہ ہیں تب بھی ہمیں اس کی معلومات ہونی چاہئے۔ مرنے والے کے بارے میں پھر بھی ایک تسلی رہتی ہے کہ اب وہ کبھی واپس نہیں آئے گا مگر یوں لاپتہ ہونے والوں کے لواحقین ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک نا ختم ہونے والے درد و کرب سے گزرتے ہیں۔

سیما بلوچ نے مزید کہا کہ اس سے پہلے بھی میں نے احتجاج کیا تھا جس پر میرے گھر والوں کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر میں خاموش نہیں بیٹھی تو میرے بھائی کو رہا نہیں کیا جائے گا جس پر میں خاموش کر بھی دیکھتی رہی مگر پھر بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ ہم نے تمام ذرائع اپنائے مگر ہماری بات کسی نے بھی نہیں سُنی اور اُس پر مزید یہ کہ ہمیں چھپ رہنے کے لئے دھمکیاں دی جارہی ہیں جو اب ہم سے ممکن نہیں رہا۔

سیما بلوچ نے مزید کہا کہ آپ کی عدالتیں موجود ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی جُرم کیا ہے تو ان پر مقدمہ چلائیں بھلے سزا دیں لیکن خُدا را یوں ان کو لاپتہ نہ رکھیں۔

مظاہرے میں بچوں سمیت تمام شریک افراد لواحقین کی حالت دیکھ کر سب کی آنکھیں اشکبار تھیں اور اس دوران انتہائی درد ناک اور رکت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔

 

یہ بھی پڑھیں

فیچرز