یکشنبه, مې 25, 2025
Homeخبریںڈی جی آئی ایس پی آر کے الزمات پر بی وائی سی...

ڈی جی آئی ایس پی آر کے الزمات پر بی وائی سی کے رہنما ڈاکٹر مہرنگ بلوچ کا جواب

شال (ہمگام نیوز) گزشتہ روز، پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل نے ایک بار پھر مجھے “دہشت گردوں کی ایجنٹ” قرار دے کر سنگین الزام عائد کیا۔ یہ کوئی پہلی بار نہیں ہے، بلکہ ایک مسلسل دہرایا جانے والا بہتان ہے، جو آج تک کسی قابلِ اعتبار ثبوت کے بغیر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ایسی بے بنیاد الزامات اب ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانیے کا معمول بنتے جا رہے ہیں۔

انہوں ( ڈی جی آئی ایس پی آر ) نے مزید کہا: “وہی (میں) تھی جو جعفر ایکسپریس واقعے میں مارے گئے دہشت گردوں کی لاشیں لینے آئی تھی۔ اسے کیا حق ہے کہ وہ ان لاشوں کی بات کرے؟”

میں واضح کرنا چاہتی ہوں کہ میرے مارچ میں کئے گئے پریس کانفرنس کو دانستہ طور پر سیاق و سباق سے کاٹ کر، مسخ کیا گیا اور جھوٹے پروپیگنڈے کے لیے استعمال کیا گیا۔ میں نے کسی قسم کے تشدد کی حمایت نہیں کی تھی، بلکہ میری واحد مطالبہ شفافیت تھا۔ میں نے ان لاشوں کی شناخت کا سوال اٹھایا تھا جنہیں رات کی تاریکی میں کوئٹہ کے کاسی قبرستان میں دفن کیا گیا، جن میں بارہ افراد ( جنہیں عسکریت پسند بتایاگیا) کے علاوہ کسی کی شناخت نہیں ہو سکی۔ باقی درجنوں لاشوں کا کیا ہوا؟ وہ کون تھے؟ ان کے لواحقین کہاں ہیں؟ کیا انہیں اپنے پیاروں کی معلومات کا حق نہیں؟

یہ صرف ایک اخلاقی مطالبہ نہیں، بلکہ کسی بھی مہذب معاشرے میں ایک قانونی حق ہے۔

بلوچستان میں کئی برسوں سے ایک اندوہناک سلسلہ جاری ہے: ریاستی ادارے ہر پرتشدد واقعے کے بعد لاپتہ افراد کو قتل کر کے انہیں “دہشت گرد” قرار دے کر خفیہ طور پر دفنا دیتے ہیں۔ جعفر ایکسپریس واقعے میں مسلح گروہ نے خود بارہ افراد کی تصاویر اور شناخت جاری کی، مگر سول ہسپتال کوئٹہ میں دو درجن سے زائد لاشیں لائی گئیں۔ سوال یہ ہے: باقی کون تھے؟ اور انہیں کیوں چھپایا جا رہا ہے؟

آج، ایک بار پھر میں ڈی جی آئی ایس پی آر سے پوچھتی ہوں: آپ کے الزامات کا کوئی ثبوت ہے؟ اگر پاکستان کی انٹیلیجنس اور عسکری ادارے اتنے ہی باصلاحیت ہیں، تو آج تک میرے خلاف کوئی قانونی یا سائنسی ثبوت کیوں پیش نہیں کیا جا سکا؟

میری جدوجہد پرُامن، اصولی اور انسانی حقوق کے عالمی اقدار پر مبنی ہے۔ میں نے ہمیشہ ہر قسم کے تشدد کی مذمت کی ہے، چاہے وہ غیر ریاستی عناصر کریں یا ریاست خود۔ مگر آج کا بلوچستان جبر، گمشدگیوں اور ناانصافی کا شکار ہے، اور جو لوگ ان سچائیوں کو زبان دیتے ہیں، انہیں “فتنہ” قرار دے کر بدنام کیا جاتا ہے۔

میرا مطالبہ ہے کہ بین الاقوامی برادری اس حقیقت کا نوٹس لے۔ بلوچ عوام کو بہتان تراشی نہیں، انصاف چاہیئے۔ انہیں دھمکیوں نہیں، جواب دہی چاہیے۔ اور سب سے بڑھ کر، انہیں خوف کے بغیر جینے کا حق چاہیے۔

خیر اندیش،

مہرنگ بلوچ

یہ بھی پڑھیں

فیچرز