ہیمبرگ (ہمگام نیوز) ژن ژیان آزادی تحریک کی جانب سے جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیا گیا جس میں فری بلوچستان موومنٹ کے کارکنوں نے شرکت کی۔
فری بلوچستان موومنٹ کی جانب سے بانُک سماء بلوچ نے بحیثیت مہمان مقرر تقریب میں شرکت کی اور مقبوضہ بلوچستان کی تاریخ اور بلوچ قوم کی جانب سے اپنی کھوئی ہوئی آزادی حاصل کرنے کی تحریک پر روشنی ڈالی۔
کانفرنس کی میزبانی کرد کارکنوں نے کی جنہوں نے ایرانی مقبوضہ کردستان کے موجودہ حالات اور بدلتے ہوئے سیاسی ماحول کے بارے میں گفتگو کی۔
کانفرنس کا مقصد ایرانی مقبوضہ بلوچستان اور کردستان کی آزادی کی تحریک میں خواتین کے کردار کو اُجاگر کرنا تھا جس پر بات کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچ اور کُرد ایرانی قبضے اور اس قبضے کے خلاف مزاحمت کررہے ہیں اور دنیا کی ہر سیاسی اور مزاحمتی تحریک خواتین کی شرکت اور نمائندگی کے بغیر ادھوری ہے۔
انہوں نے کہا کہ قابض ریاست ایران کی جانب سے دونوں اقوام کے خواتین کو ہی نشانہ بنایا گیا جہاں سے ایک نئے انقلاب نے جنم لیا اور عوام میں ایک نئی مزاحمتی لہر آگئی جس کو آگے بڑھا کر اپنی آزادی تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔
بانُک سماء بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان اس وقت دو مختلف قابضین کے خلاف جدوجہد کررہی ہے اور دونوں اطراف سے دشمن ریاستیں بلوچ قوم کا قتل عام کررہی ہیں مگر اس کے باوجود بلوچستان کی آزادی کی تحریک کو دبانے میں ناکام ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایک سال پہلے بلوچ بچی ماہو بلوچ کو ایرانی درندہ صفت اہلکار نے زیادتی کا نشانہ بنایا جس کے بعد بلوچ عوام بڑی تعداد میں احتجاج کرنے گھروں سے باہر نکلی جہاں اس احتجاج کو سبوتاژ کرنے کے لئے ایرانی مسلح فوجیوں نے مظاہرین کو گولیوں کا نشانہ بنا کر 113 افراد کو شہید کردیا مگر اتنی بڑی تعداد میں اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کرنے کے باوجود بلوچ عوام خوف زدہ نہیں ہوئی اور ایک سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود اور لاتعداد پھانسیوں، جبری گُمشدگیوں، گرفتاریوں، شہادتوں اور بے تحاشہ مظالم سہنے کے باوجود بھی یہ مزاحمت جاری ہے۔ اس مزاحمت نے وہاں کے عوام کو مزاحمتی شعور دیا جس میں خواتین بھی اُسی طرح سے شامل ہیں جس طرح سے مرد جو یقینا بلوچ قومی تحریک آزادی کے لئے نیک شگون ہے۔