شنبه, مې 24, 2025
Homeخبریںکامریڈ فاطمہ بلوچ کے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف اہلخانہ کا...

کامریڈ فاطمہ بلوچ کے بھائی کی جبری گمشدگی کے خلاف اہلخانہ کا پریس کانفرنس

شال (ہمگام نیوز) ایمل بلوچ کی والدہ کا کہنا ہے میں آج ایک ماں کی حیثیت سے آپ سب کے سامنے کھڑی ہوں، دل میں ایک ایسا درد لیے جو لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتا۔ میری گود کا چراغ، میرا بیٹا، ایمل ولد اورنگزیب، جو ایک عام طالبعلم تھا، اسے گزشتہ رات ریاستی اداروں کے اہلکار گھر سے اغوا کر کے لے گئے۔

انہوں نے کہا گزشتہ رات ہم پر ایسی قیامت ثابت ہوگئی جسے ہم کبھی نہیں بھول سکیں گے۔ سادہ لباس میں ملبوس مسلح اہلکار ہمارے گھر میں داخل ہوئے، نہ کوئی وارنٹ، نہ کوئی قانونی دستاویز، صرف خوف، بندوقیں اور درندگی کی انتہا وہ میرے بیٹے کو میرے سامنے زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔ جب ہم نے مزاحمت کی، سوال اٹھایا تو ہمیں دھکے دیے گئے، غلیظ گالیاں سننے کو ملیں، سادہ کپڑوں میں ملبوس مسلح اہلکاروں نے ہمارے موبائل فون تک چھین لیے تاکہ ہم کسی کو مدد کے لیے پکار نہ سکیں۔

انہوں نے کہا میری بیٹی فاطمہ بلوچ، جو ایک نڈر، کم عمر مگر باشعور بچی ہے، ہمیشہ بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے آواز اٹھاتی رہی ہے، جلسوں، دھرنوں اور ریلیوں میں شامل رہی ہے، ریاستی جبر کے خلاف آواز بلند کیا، ریاستی آئین کے تحت ہی بلوچ گمشدہ افراد کی بازیابی اور انہیں عدالت کے سامنے پیش کرنے کی بات کی،

آج میں سب سے یہ سوال کرتی ہوں:

کیا ایک ماں کی آغوش میں پیدا ہونے والی ایسی بچی کو سزا دی جا رہی ہے جو ملکی آئین کے تحت اپنے گمشدہ بلوچ بھائیوں کے لئیے صدائے انصاف بلند کررہی ہے؟

کیا یہی اس کی ہمت کا صلہ ہے کہ انکے بھائی کو چھین لیا جائے؟

انہوں نے کہا پرامن سیاسی سرگرمیاں ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور اس بنیادی حق کو ہم سے نہ کوئی چھین سکتا ہے اور نہ کسی کو ہم یہ حق دیں گے کہ وہ ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرکے ہمیں ہمارے بنیادی حقوق کی جد و جہد سے دستبردار کرسکیں۔

اب یہ سوال ضرور بنتا ہے کہ آخر ہم کہاں جائیں؟

ہم کن دروازوں پر دستک دیں؟

میں آپ سب کے توسط سے ریاست اور مقتدر قوتوں یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ:

 1. میرے بیٹے ایمل کو فوری طور پر بازیاب کیاجائے اور انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔

 2. ہمارے گھر پر حملہ کرنے اور چادر و چاردیواری کو پائمال کرنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

 3. فاطمہ اور میری باقی اولاد کی تحفظ کو یقینی بنایا جائے، کیونکہ وہ اس ریاست کے اندر کوئی اور نہیں محض سچ بولنے کا جرم کر رہے ہیں۔

 4. جبری گمشدگی جیسے مظالم کا خاتمہ کیا جائے، اور ان کا شکار بننے والے خاندانوں کو انصاف دیا جائے۔

انہوں نے کہا معزز صحافی حضرات اور انسانی حقوق کے علمبردارو:

میں ایک ماں ہوں، باقی ماؤں کی طرح میرا بیٹا بھی میری آنکھوں کا نور ہے۔ لہذا میں اس وقت تک خاموش نہیں بیٹھوں گی جب تک میرے بیٹے کو واپس نہ لایا جائے۔

میں جانتی ہوں میں تنہا نہیں، میرے ساتھ ہر وہ ماں ہے جو اپنے بچوں کے لیے جیتی ہے، اور ہر وہ انسان ہے جو انسانیت پر یقین رکھتا ہے، مجھے امید ہے کہ سارا بلوچستان سمیت انسانی حقوق و اقدار پر یقین رکھنے والے تمام انسان دوست میرے ساتھ میری اس جد و جہد میں کھڑے رہیں گے۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز