ھمگام رپورٹ
مرتب: آرچن بلوچ
سنندج (ھمگام رپورٹ) نوجوان کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ملک کو ہلا کر رکھ دینے والے مظاہروں کو شروع ہوئے 100 سے زائد دن گزر چکے ہیں۔ سینکڑوں افراد نے مہران رحمانی کے چہلم کی تقریب میں شرکت کی، جو گزشتہ ماہ کرد شہر مہاباد شہر میں مظاہروں کے دوران مارے گئے تھے۔ یہ بات ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب کرد انسانی حقوق کی تنظیم ہینگاو نے اطلاع دی ہے کہ ایرانی حکام نے ملک کے شمال مغرب اور مغرب میں واقع کرد شہروں میں 500 سے زائد خواتین کو گرفتار کیا ہے۔ہینگاو نے کہا کہ اس کی تنظیم نے 201 خواتین قیدیوں کی شناخت کی تصدیق کی ہے جن میں 72عورتیں صوبہ کردستان کے مرکز شہر سنندج سے اور 16 تہران سے اٹھائے گئے ہیں۔ تنظیم کے مطابق احتجاج کے 110 دنوں کے دوران گرفتار ہونے والی کرد خواتین میں 18 سال سے کم عمر کی 30 نوجوان خواتین بھی شامل ہیں۔ ایرانی حکام نے حراست میں لیے گئے افراد کے بارے میں کوئی اعداد و شمار نہیں دیے تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر کو رہا کر دیا گیا ہے۔
دوسری طرف انسانی حقوق کی تنظیم نے نیوز ایجنسی ہرانا کو بتایا کہ 29 دسمبر تک 508 مظاہرین جن میں 69 نابالغ بچے بھی شامل ہیں مارے جا چکے ہیں۔ ان مارے جانے والوں میں سیکورٹی فورسز کے 66 ارکان بھی شامل ہیں۔ ثقافتی انقلاب کی سپریم کمیٹی کے سیکرٹری نے کہا کہ پولیس کو حالیہ واقعات میں پرتشدد نہیں ہونا چاہتی تھی اس لیے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انہوں نے اخلاقی پولیس کے خاتمے کے بارے واضح طور پر تردید کی اور کہا اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں ہے۔ دسمبر کے اوائل میں، ایرانی پبلک پراسیکیوٹر نے اخلاقی پولیس کے خاتمے کا اعلان کیا تھا، لیکن اپوزیشن نے لازمی نقاب کے قانون کی مسلسل نفاذ کو دیکھتے ہوئے اس اعلان پر سوال اٹھایا تھا۔