سیندک (ہمگام نیوز) چین کے بدبخت صوبے ووہان سے سر اٹھانے والی وائرس پوری دنیا میں تیزی سے پھیل رہا ہے ۔ یورپی ممالک سمیت ایران بھی اس کی گرفت میں آ چکے ہیں ۔ایران سے ہوتے ہوئے پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بھی کرونا وائرس کا کیس منظر عام پرآ چکا ہے۔
ہر ملک اپنی بساط کے مطابق حفاظتی اقدامات کر رہا ہے۔لیکن ایران اور افغانستان بارڈر سے متصل سیندک کاپر اور گولڈ پراجیکٹ جو کہ ایک کونے میں واقع ہے میں کرونا کی حفاظت کے لیئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جار ہے ہیں۔
سیندک پراجیکٹ میں “کرونا” وائرس کے حفاظتی اقدامات نہ ہونے کے حوالے سے ملازمین نے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیندک پراجیکٹ کے ہسپتال پہلے سے ہی کمپوڈر کے توسط سے چل رہے ہیں جہاں ہر مرض کے لیئے پہلے سے ہی گولیوں پر متعلقہ مرض کے بارے میں نشان لگی ہوئی ہے۔ تو وہ کیسے کرونا کی تشخیص اور علاج کر سکتے ہیں؟ حالانکہ 3 ہزار ملازمین اور کلیوں پر مشتمل افراد کے لیئے 25 بیڈ پر مشتمل ہسپتال ناکافی ہے۔
ملازمین نے سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ دو کمپوڈر مریضوں کو کیا تحفظ دے سکتے ہیں؟ جہاں پر ملازمین کی بجائے تفتان اور کچاؤ سے آنے والے افراد کو پیسے کی لالچ پر بھی علاج کیا جاتا ہے۔
کراچی میں کرونا وائرس کے دو کیس سامنے آنے کے بعد بلوچستان کے وزارت تعلیم نے بلوچستان کے تمام تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان کردیا ہے، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ سیندک پراجیکٹ میں کرونا وائرس کے ممکنہ خطرات سے نمٹنے کے لیے اسے بند کرنے کی بجائے مزید پروڈکشن کے لیئے ملازمین کی چٹھیاں منسوخ کرکے انہیں ذہنی کوفت اور محصور کرکے رکھ دیا ہے۔اگر خدا نخواستہ کسی ملازم میں وائرس پایا گیا تو اس کی جسد اس کے پیاروں تک پہنچ نہیں پائے گی۔
واضح رہے سمیلٹر کے 50 سے زیادہ چینی ملازمین کا تعلق “ووہان” شہر سے بتایا جا رہا ہے جن کی غیر موجودگی میں سمیلٹر بند پڑا ہے ۔بند ہونے کے باوجود پتھروں کو پیس کر ایڈوانس اسٹاک کیا جارہا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ صوبائی حکومت سیندک پراجیکٹ میں ٹیکنیکل عملہ روانہ کر کے 24 گھنٹے ایمرجنسی نافذ کرے اور وائرس کے ٹیسٹ کے لیے علٰیحدہ وارڈ قائم کر کے طبی آلات، مشینری بھیج کر حفاظتی اقدامات کے لیئے ٹھوس منصوبہ بندی کی جائے یا بہ صورت دیگر ملازمین کی چھٹیاں بحال کر کے ان کو گھر روانہ کیا جائے تاکہ ملازمین ذہنی مرض ے شکار نہ بنیں۔