کوئٹہ (ہمگام نیوز)بلوچ سالویشن فرنٹ کی مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کئے گئے بیان میں کریمہ بلوچ کی جانب سے بی این ایم خلیل کو اتحاد کا علمبردار اور دیگر اکائیوں کو یکجہتی مخالف قرار دینے کی سوچ کو ماضی قریب کے اتحادات اور ان کی ٹوٹنے کی تلخ وجوہات کو شعوری طور پر مسخ کرنے کی کوشش سمجھتے ہوئے کہا ہے کہ اگر بانک کریمہ زمینی حقائق سے چشم پوشی کرنے کے بجائے ان کی نشاندہی کرتا تو بی ایس اوکی آزاد حیثیت والے پوزیشن کم از کم واضح ہوتی لیکن ان کی یکطرفہ سوچ ان کی آزاد وغیر جانبدارانہ حیثیت کی پوزیشن کو انتہائی کمزور ہوچکی ہے اور وہ محض علاقائی اتحاد تک محدود ہوکر بی این ایم خلیل کے سٹوڈنٹ ونگ کے طور پر ابھر کر قومی یکجہتی اور اشتراک عمل کو نقصان دینے والے کرداروں کوبری الزمہ قرار دیکر تاریخی حقائق کو جھٹلا رہاہے بانک کریمہ وکیل صفائی نہ بنے اگر بی این ایم خلیل اوربی ایس او کے علاقائی قیادت یکجہتی اور اتحاد کے اتنے دلدادہ ہیں تو بی این ایف جیسے قومی اتحاد کو تقسیم کرنے کی زمہ دار ی کس کے سر پر ڈالی جائے کیا تاریخ سے اس صٖفحہ کو پھاڑا جاسکتا ہے کہ بی ایس او کو بی این ایم کے چنگل میں دینے والے بی ایس او کے قیادت اور بی این ایم مل کر بی این ایف کو تقسیم نہیں کیا اور ایک طویل عرصہ کے بعد بلوچ قومی سیاست کے اندر یکجہتی اور اشتراک کا ایک سوچ نشود نماء پاء چکی تھی جس کی واضح ثبوت بلوچ نیشنل فرنٹ کی قیام تھا جو ایک طریقہ کار اور ایک سوچ کو لیکر تشکیل دیا گیا لیکن علاقائی اور گروہی سیاست کے ٹھیکدارون نے اتحاد کے بیچ چھری گھونپ کر بی این ایف کو مخصوص گروہوں کی سیاست کا ترجمان بناکر قومی ہم آہنگی کو پارہ پارہ کیا ترجمان نے کہاکہ ماضی کے غلطیوں پر پردہ ڈالنے کے بجائے اگر کریمہ بلوچ دور اندیشی کا مظاہر ہ کرکے بی این ایم کے قیادت سمیت ماضی کی کوتائیوں اور غلطیوں پر خود کو احتساب کے لئے پیش کرکے اگر ایک نئی منظم اور دیر پاء اتحاد کی بات کرتے تو یہ شائد تعجب خیز نہیں ہوتا لیکن انہوں نے جس روایتی انداز میں بی این ایم خلیل کا دفاع کرتے ہوئے ان کی جانب سے اتحاد کی مثبت پیش رفت اوردوسروں پر اتحاد مخالفت کا الزام لگاتے ہوئے بلوچ عوام کو گمراہ کر نے کی کوشش کرتے ہوئے زمینی حقائق پر نقاب ڈالنے کی سعی لاحاصل کوشش ہے یہ مضحکہ خیز اورآنکھوں میں دھول جھونکنے کی مترادف ہے ترجمان نے کہاکہ بلوچ نیشنل فرنٹ کو 2011کے اوائل میں توڑنے کے بعد2013میں بی این ایم کے زیر کنٹرول بی ایس او کی جانب سے اتحاد اور اختلافات کے حل کے لئے کمیٹی ڈرافٹ اور کوششوں کی بات اس وقت موثر ہوتی جب بلوچ قومی اتحاد اور مرکزیت کوتوڑنے والے زمہ داروں اور بلوچ قومی آزادی کے سیاست کو علاقوں اور گروہوں میں بھاٹننے والے کردارون کوبلا لحاظ اوربلا مروت احتساب سے گزارجا تھا اور شرط اول کے تحت بی ایس او بی این ایم خلیل کی تابعداری اور پاکٹ آرگنائزیشن کے بجائے اپنی آزاد حیثیت میں پوزیشن ظاہر کرنے کی جرائت کرتی تو پھر کسی کو بھی ان کی نیت پر شک نہ ہوتا اور ساتھ ساتھ بی این ایم اور ان کے گروہی اور نام نہاد وژنری قیادت اپنی غلطیوں کو تسلیم کرتے اور اختلافات کی وجوہات کو بھی زیر غور لا یا جاتا کہ وہ کونسے عوامل ہیں جومرکزیت گریزی کا باعث بن چکے ہیں ایک طرف ان کوششوں کا دعوی اور پھر ایک ہی دعوی میں الزام اور صفائی والی پوزیشن اور بی این ایم کا دفاع اور خود ایک متنازعہ کردار کے ساتھ اپنے تہیں غلط اور صحح کا فیصلہ بی ایس او کریمہ کے تذبزب نیت غیر سیاسی پن اورغیر سنجیدگی پر مہر ثبت کرتی ہے لیکن اس طرح کے صلح صفائی اور حقائق پر چشم پوشی سے بی این ایم اور بی ایس او کے موجودہ متنازعہ قیادت خود کو کسی بھی صورت بری الزمہ نہیں کرسکتے بلوچ قوم اب کسی کے چرپ و شیرین اور روایتی سیاسی بلیک میلنگ کا شکار نہیں ہوگا ترجمان نے کہاکہ کریمہ بلوچ کے حالیہ بیان قوم کے ساتھ ایک مذاق ہے بی این ایف کی تقسیم اور توڑنے کی سازشوں پر دیدہ دانستہ پردہ ڈالنے کا عمل اور بی این ایم خلیل اور بی ایس او کے قیادت کو استثنی دینے کی منفی روایت مستقبل کے کسی بھی اتحاد و یکجہتی پر ضرب اول ہوگا ایسے مفروضاتی کوششوں کی بات سے قوم کو گمراہ نہیں کیا جاسکتا بی این ایف کو توڑنا کیا یکجہتی مخالفت کا ثبوت نہیں تھا اب کیسے کریمہ بلوچ کے نظر میں خلیل اور ان کے ہمراہ دار گروہی سیاست کے چیمپیئن اتحاددوست بن گئے کیا ان کا یہ عمل تقسیم اور اتحاد دشمنی کے ضمرے میں نہیں آتے اگر بی این ایم کے زیر کنٹرول بی ایس او اتحاد دوستی کا مظاہرہ کرتا جو ان کی کوششوں والی بات کی تناظر میں بی این ایف کو توڑنے کے عمل میں شریک ہونے کے بجائے وہ اسے روکنے کی عمل میں شریک ہوتے لیکن بد قسمتی سے بی ایس او کریمہ کی جانب سے ایسی سنجیدگی نظر نہیں آئی بلکہ وہ بی این ایف کو توڑنے میں برابر کے شریک ہین اب ان کی طرف سے اتحاد دوستی کی بات اور دوسروں پر اتحاد مخالفت اور انتشار پھیلانے والے الزامات کی حیثیت مٖفروضون اور مغالطوں کو جنم دینے کی مترادف ہے ترجمان نے کہا کہ بی ایس او کریمہ اپنے موجودہ بی این ایم کے زیر کنٹرول والی پوزیشن سے دستبردار ہوجائے پھر اگر اتحاد کے لئے کسی کوشش کا حصہ بنے تو یقیناًان کی کوششوں کی اہمیت مسلمہ ہوگی گروہیت میں رہ کر اتحاد کی بات کرنا مضحکہ خیز ہے