بیجنگ (ہمگام نیوز) شی جن پنگ نے اقتدار میں آتے ہی مذہبی اداروں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔چین میں لاکھوں بدھ، مسلمان اورعیسائی بستے ہیں۔ شی جن پنگ نے انھیں مذہبی آزادی کا وعدہ تو کیا ہے، لیکن اس آزادی پر قدغنیں بھی عائد ہیں۔ چینی حکومت ترجیح دیتی ہے کہ لوگ سرکار کی جانب سے تفویض کردہ عمارتوں ہی میں عبادت کریں، اور اس کی خلاف ورزی پر سزائیں دی جاتی ہیں۔حکام نے ماضی میں ایسے چرچ توڑ ڈالے ہیں جو ان کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہیں، اور بیجنگ میں بعض مسلمانوں کو داڑھیاں رکھنے سے روکا گیا ہے
چین کے سرکاری میڈیا کے مطابق شی جن پنگ نے بیجنگ میں کیمونسٹ پارٹی کے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے مذہب کی جانب رویے کے خدوخال واضح کرکے کہا “ملک کی مذہبی تنظیمیں اپنی اقدار کو چینی ثقافت اور کمیونسٹ پارٹی سے ہم آہنگ بنائیں۔”صدر شی نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ “چینی کمیونسٹ پارٹی خدا سے زیادہ اہم ہے۔مذہبی تنظیموں پر لازم ہے کہ وہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے وابستہ رہیں۔پارٹی کے کارکن لازمی طور پر بےلچک لادین رہیں، اور خود کو بیرونِ ملک سے آنے والے دینی اثرات سے بچائے رکھیں۔” واضح رہے کہ شی جن پنگ کے دور اقتدار میں مذہبی اداروں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا گیا۔ اس سلسلے میں مغربی سنکیانگ صوبے میں رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے اور داڑھیاں رکھنے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں جب کہ حال ہی میں مشرقی ژیجیانگ صوبے میں مقامی حکام نے چرچ منہدم کیے ہیں یا ان پر لگی صلیبیں اکھاڑ پھینکی ہیں۔چین نے 1970 کی دہائی میں مذہب کو جڑ سے اکھاڑ دینے کی کوشش ترک کر کے مساجد، چرچوں اور دوسری عبادت گاہوں پر سرکاری کنٹرول کی حکمتِ علمی اختیار کی تھی۔