کوئٹہ (ہمگام نیوز) جبری لاپتہ افراد شہدا کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 5084 دن ہوگئے اظہار یکجہتی کرنے والوں میں بلوچ اسٹوڈینٹس ایکشن کمیٹی کے چیرمین اپنے قابینہ اور ساتھیوں کے ساتھ کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے وائس چیرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں سیاسی کارکنان طلبہ اساتذہ بزرگ بچے خواتین سمیت ہر وہ فکر جو بلوچ کی حامی ہے انکا لاپتہ ہونا کوئی نئی باتھ تصور نہیں کی جاتی کیونکہ گزشتہ بیس سالوں کے دوران جبری اغوا کی وارداتیں اتنی تسلسل اور تیزی کے ساتھ رونما ہو رہیں ہیں۔ کہ اب تک ساٹھ ہزار سے زاہد افراد کی رپورٹ مرتب کی گئی۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کا شاید کوئی گوشہ نہ بچا ہو جہاں کسی بلوچ فرزند کو جبری اغوا نہ کیا گیا ہو جبری لاپتہ افراد کے لواحقین گزشتی کئی سالوں سے کراچی کوئٹہ اسلام آباد سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھوک ہڑتامی کیمپ لگائے جاتے ہیں۔ لیکن نتائج بازیابی سے ہٹھ کر مسخ شدہ لاشوں کی انبار ہے دشمن جبری لاپتہ افراد کی حراستی شہادت کا باقاعدہ آغاز کیا ہے جو بے دردی اور غیرانسانی تشدد کے ذریعے اسیران کی لاشیں پھینکنے کا گھناونا عمل کر رہے ہیں۔ جن کے ہاتھ پاوں ٹوٹے ہوئے ہوتے ہیں جسمیں ڈرل کی ہوئی آنکھیں نکالی گئیں کان ناک کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ جسے دیکھ کر انسانیت کی سر شرم سے جکھ جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں کوئی گھر ایسا نہیں نس میں کوئی فرزند خفیہ ادروں کی بھینک نہ چڑا ہو۔ ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ بلوچ لاپتہ افراد کی اس انسانی المیے پر پوری دنیا خاموش تماشائی ہے بلوچ فرزندوں کے لواحقین اپنے پیاروں کی واپسی کی راہ تکھتے رہتے ہیں۔ لیکن حراستی شہادت کے واقعات نے ان کی امیدوں کا دم گھونٹ دیا ہے اُنھیں سوفیصد یقین ہے کہ انکے پیاروں کی لاشیں انہیں ملیں گی کیوںکہ انہیں دشمن سے یہی توقع ہے۔ اگر کوئی خفیہ اداروں کی عقوبت خانوں سے بچ کر بازیاب ہو جائے تو محض یہ ایک اتفاق ہوگا۔ کیونکہ بہت سے جبری لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں برامد ہوگئیں ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے بطور وضاحت کہا کہ کل مورخہ 21 جون کے بیان کے آخر میں کسی تنظیم نے باکسی اپنی طرف سے یہ چند الفاظ شامل کیے ہیں کہ بیروں اپنے مفادات کی خاطر وی بی ایم پی کا نام استعمال کیا ہے۔ میرا بیان میں ایسا کوئی ذکر نہیں۔ میں نے اپنا بیان فیس بک پر بھی دیا ہے۔ آپ لوگ دیکھ سکتے ہیں کہ اس طرح کا کوئی بیان نہیں ہے۔