چهارشنبه, سپتمبر 25, 2024
Homeخبریںکوئٹہ: گمشدگیوں کا عالمی دن؛ وی بی ایم پی کا سیمینار

کوئٹہ: گمشدگیوں کا عالمی دن؛ وی بی ایم پی کا سیمینار

کوئٹہ (ہمگام نیوز) جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے مناسبت سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیرِ اہتمام سیمینار کا انعقاد۔

سیمینار میں مہمانِ خاص بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) کے سربراہ سردار اخترمینگل تھے۔

سیمیار کا ابتداء قرآن کی تلاوت کے بعد لاپتہ افراد کے لواحقین کی تقریر سے کی گئی۔

سیمیار سے خطاب میں وی بی ایم پی کے رہنماء نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ہم صحافی، وکلاء، انسانی حقوق و سیاسی رہنماؤں و کارکنان سمیت تمام شرکہ کا شکرگزار ہیں جنہوں نے شرکت کرے تقریب کو کامیاب بنایا۔

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ ایک خاندان کیلئے انکے کسی فرد کی موت سے زیادہ انکی جبری گمشدگی زیادہ ازیتناک ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریاست کے آئین میں ہے کہ اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھاؤ لیکن جب بلوچ یا پشتون اپنے ساحل و وسائل کی بات کرتے ہیں تو ریاستی اداروں کو گوارا نہیں گزرتی اور انہیں جبری گمشدگی کا شکار بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اور پشتونوں کے باشعور نوجوانوں کو لاپتہ کرنے کے بعد انہیں ٹارچر کرکے انکی لاشیں پھینکی جاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج بلوچ، پشتون اور سندھی کا باشعور نوجوان طبقہ آپکے ظلم و جبر کیخلاف پرامن جدوجہد کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آپکے طاقور اداروں کے ظلم و جبر، ناانصافیوں اور انصاف کیلئے قائم اداروں سے مایوس ہوکر آج بلوچ کا باشعور طبقہ اور باشعور طلبہ تمھارے خلاف اسلحہ اٹھاکر مسلح جدوجہد کررہے ہیں۔

نصراللہ بلوچ نے کہا کہ پچھلے 74 سالوں سے آپ نے بلوچستان پر طاقت کا استعال کیا کچھ تبدیلی نہیں آئی بلکہ یہ سلسلہ یوں کی چلتا رہا، آپ جو بھی ظلم کرتے رہوگے اور لوگ اپنے حق کیلئے لڑتے رہیں گے لیکن آپ کامیاب نہیں ہوں گے۔

نصراللہ بلوچ نے مزید کہا کہ پاکستان میں بنائی گئی عدالتیں اپنی آئین کو کارآمد لاکر جبری گمشدیاں ختم کرکے اپنی قانون لاگو کریں اور خود کو بااختیار بنائیں۔

لاپتہ زاکر مجید کی والدہ نے شرکہ سے رو رو کر کہا کہ میرے گھر میں توڑ پھوڑ کی گئی، میرا گھر توڑ دو لیکن میرا بیٹا لوٹا دو۔

بی این پی (مینگل) کے سربراہ اختر مینگل نے سیمینار سے خطاب میں کہا کہ تمھاری ملک کی سالمیت کی بنیاد میرے بچوں کی قبروں پر مسخ شدہ لاشیں اور ہڑیاں رکھی جارہی ہیں تو یہ ریاست قائم نہیں ہوسکتی۔

سردار اخترمینگل نے کہا کہ آپ ظلم و جبر سے اس ریاست کو میرے بچوں کی خون سے ڈبو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایسا کوئی گاؤں یا قبیلہ نہیں رہا جن کا کوئی تعداد مسنگ پرسنز کی لسٹ میں شامل نہ ہو۔

سردار اخترمینگل نے مزید کہا کہ کتنی عدالتیں لگیں اور کئی کمیشنیں بنیں لیکن آج تک کوئی بازیاب نہیں ہوا اور ناہی کوئی ملزم ٹہرایا گیا۔

سیمینار کی شرکہ سے خطاب میں بلوچ ویمن فارم کی آرگنائزر ڈاکٹر شالی بلوچ نے کہا لاپتہ افراد کی مائیں کتنی دور دور سے آتی ہین جنکے پاس سفر کیلئے پیسے نہیں ہوتے وہ بھیک مانگ کر یا ادھار لیکر یہاں پہنچ جاتی ہیں۔

شالی بلوچ نے کہا کہ لاپتہ افراد کی مائیں پٹھے کپڑوں اور پٹھے جوتوں کے ساتھ یہاں آکر پارلیمنٹ والوں سے یہی فریاد کرتی ہیں کہ میرے بیٹے کو لوٹا دو لیکن انہیں پتہ نہیں ہوتا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ بھی انہی کی طرح بے بس ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان سے والدین غربت اور تنگ دستی سے اپنے بچوں کو پڑھانے شہر بھیجتے ہیں لیکن ریاست ادارے راستوں میں انہیں لاپتہ کرکے عقوبت خانوں میں سالہ سال قید کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پھر یہی ماں اپنے بیٹھے کی بازیابی کیلئے سڑکوں،اسلام آباد کی پریس کلب، کراچی کے پریس کلب اور کوئٹہ کے پریس کلبوں پر اپنی فریاد لیکر آتی ہے کہ تم اسکی فریاد سنو۔

ڈاکٹر شالی بلوچ نے کہا کہ یہی تمھارے نام نہاد میڈیا اور نام نہاد انسانی حقوق کے کارکنان اور دعوےدار بلوچستان میں انسانی حقوق پر خاموش ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ یہ مسئلہ زاکر مجید یا کسی دوسرے لاپتہ بلوچ کی ماں کا مسئلہ ہے بلکہ یہ پوری بلوچ قوم کا مسئلہ ہے اس ظلم سے کوئی نہیں بچ سکتا۔

ڈاکٹر شالی بلوچ نے کہا کہ بلوچستان میں ایسا کوئی گھر نہیں جہاں کوئی طلبہ لاپتہ نہ ہو یا کوئی ایسا گھر نہیں جہاں کسی نوجوان کی لاش نہ ملی ہو۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ایک بچہ اپنی آنکھ کھولتے ہی جس نے دنیا نہیں دیکھی اس سے وہ زندگی چھینی جاتی ہے، اس سے والد کی خوشیاں چھینی جاتی ہیں اور پھر وہی بچہ بڑا ہوکر جسکی عمر پڑھ لکھنے کی ہوتی ہے لیکن وہی بچہ اپنے والد کی بازیابی کیلئے اُسی جگہ پہچ جاتا ہے جہاں لاپتہ افراد کیلئے کیمپ لگائے گئے ہوں۔

ڈاکٹر شالی بلوچ نے کہا کہ ایک ماں سالوں سے اپنے بیٹے کے انتظار میں رہتی ہے کہ کب انکا بیٹا آئے گا، یہی ماں سڑکوں پر، اور پریس کلبوں پر در بہ در ہوتی اور اپنے بیٹے کی تصویر لیکر وزیروں کے پاس خاکر ٹوکریں کھاتی ہے اور زندگی اپنے انجام تک پہنچتی ہے۔

ڈاکٹر شالی بلوچ نے کہا کہ ایک ماں اپنی فریاد لیکر کہتی ہے کہ 15 سالوں سے تم نے میرے بیٹے کو لاپتہ کیا ہے اگر آپ بیٹے کو زندہ لوٹا نہیں سکتے انکی لاش دلوا دو تاکہ میں زندہ ہوں اپنے بیٹے کی لاش کم از کم دیکھ سکوں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ کیلئے انکی زمین اور زندگی تنگ کی گئی ہے،بلوچ کبھی بھوک کی وجہ سے مر جاتا، کبھی سی ٹی ڈی گھر سے اٹھاکر فیک انکاؤنٹر میں مار دیتی ہے، کبھی انکی مسخ شدہ لاش پھینکی جاتی ہے یا ریاست کی بنائی ہوئی مذہبی انتہاء پسندوں کے ہاتھوں قتل کیا جاتا ہے دراصل یہ بلوچ نسل کشی ہے۔

سیمینار سے خطاب میں عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء مابت کاکا نے کہا کہ اسداللہ مینگل سے شروع کیا گیا جبری گمشدگی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

انہوں نے کہا کہ جبری گمشدیوں سے متاثر وڈھ کے رہنماء کو ڈیتھ اسکواڈ کے ذریعہ دبانے کی کوشش کی جارہی ہے جو انکی (یعنی ریادست) کے خواہشات ہیں۔

مابت کاکا نے کہا بلوچستان میں مائیں جو مسخ شدہ لاشیں اٹھاتی ہیں یہی صورتِ حال ہمارے پختون خواہ میں ہے جہاں ہم لاشیں شناخت ڈی این اے ٹیسٹ سے کرواتے ہیں۔

انہوں نے کہا آپ نے گوادر کا چرچا پوری دنیا میں پنہچا دیا ہے لیکن وہاں کی ائیرپورٹ کو فیروز خان نون کے نام سے منسوب کررہے ہو اور وہاں کی یونیورسٹی کو لاہور میں تعمیر کررہے ہو یہ کیا پیغام دے رہے ہو؟

سیمینار سے خطاب میں نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء کبیر محمد شہی نے کہا کہ اس دھرتی پر ریاست ایک ڈائن بن چکی ہے جو اپنے ہی بچوں کو کھا رہی ہے، یہ چار دہائیوں سے جاری ہے بلکہ چار دہائیوں سے پہلے بھی گمشدگیوں کے نشانات ملیں گے۔

انہوں نے کہا آج لاپتہ افراد کا مسئلہ ریاست کے منہ پر بدنما داغ ہے جو شاید قیامت تک دھل نہیں سکے گا کیونکہ یہ ایک انسانی بحران کی شکل اختیار کرچکی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیا اس ریاست کے اشرافیہ اور بھاگ دوڑ کو سنبھالنے والے یہ نہیں سمجھتے کہ ہماری ماں بہنیں کس طرح اپنی زندگی گزار رہی ہیں جنکے آنسو ایک منٹ بھی خشک نہیں ہوتے اور بہت سی مائیں رو رو کر اندھی بھی ہو چکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک ماں اسلام آباد آئی تھی اس نے کہا تھا کہ مجھے بتایا جائے میں بیوہ ہوں یا بیوی، کم از کم تسلی ہو۔ کہ میرا پیارا زندہ ہے یا مردہ یا اسکی قبر دکھائی جائے تاکہ سکون ملے۔

کبیر محمد شہی نے کہا ریاست کے ولی اور وارثوں کو کہتے ہیں کہ اپنی ملکی آئین پر عمل درآمد کرو یا ہم اپنی حقوق کی بات کریں تو ہمیں غدّار کہا جاتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ریاست جن عدالتوں میں کروڈوں روپے خرچ کرکے ججوں کو 13 13 لاکھ تنخواہ دیتی ہے ہمارے بچوں کو ماؤں کے سامنے عدالتوں میں پیش کروائے جو سزا کے حق دار ہیں آئین و قانون کے مطابق سزا دیں اگر نہیں کرسکتے تو عدالتوں کر تالے لگواؤ۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز