کابل(ہمگام نیوز ڈیسک) افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی نے بروز جمعہ کو پارلیمان میں نومنتخب اراکین اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں ارکانِ پارلیمان پر زور دیا ہے کہ وہ طالبان کے ساتھ جاری امن عمل میں حصہ لیں۔اپنے خطاب میں صدر غنی کا کہنا تھا کہ افغان حکومت ملک میں قیامِ امن کے لیے منصوبہ پیش کرچکی ہے اور ان کی حکومت اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے کیلئے اپنے عزم پر قائم ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجوزہ منصوبے کے تحت کوئی ایسا امن معاہدہ یا مذاکرات قبول نہیں کیے جائیں گے جن کی منظوری پارلیمان سے نہ لی گئی ہو۔
افغان صدر کے بیان کا بظاہر اشارہ امریکہ اور طالبان کے درمیان جاری مذاکراتی عمل کی طرف تھا جس پر افغان حکومت ماضی میں بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتی آئی ہے۔
افغان صدر نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کے معاملے پر لویہ جرگہ بھی طلب کر رکھا ہے جس کا چار روزہ اجلاس پیر سے کابل میں شروع ہوگا۔صدر غنی کی حکومت نے آئندہ ہفتے شروع ہونے والے لویہ جرگےکے لیے افغانستان بھر سے دو ہزار سے زائد مندوبین کو مدعو کیا ہے لیکن حزبِ اختلاف کے کئی رہنماؤں نے اس کے بائیکاٹ کا بھی اعلان کیا ہے۔صدر غنی رواں سال ہونے والے انتخاب میں دوسری مدت کے لیے عہدۂ صدارت کے امیدوار ہیں۔ لیکن طالبان کے ساتھ جاری امریکہ کے مذاکرات نے انتخابات کے مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے کردیے ہیں۔افغانستان کی عدالتِ عظمیٰ بھی صدر غنی کو ستمبر میں ہونے والے صدارتی انتخابات تک اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کی اجازت دے چکی ہے۔بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ صدر غنی لویہ جرگے کے ذریعے امن مذاکرات پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنی صدارت کو دوام بخشنے کے خواہش مند ہیں۔ان خدشات کے پیشِ نظر حزبِ اختلاف کے کئی سیاست دان مطالبہ کر رہے ہیں کہ صدر غنی آئندہ ماہ اپنے عہدے کی مدت پوری ہوجانے کے بعد عہدہ چھوڑ دیں اور عبوری حکومت قائم کرکے اسے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کا اختیار دے دیں۔ لیکن صدر غنی یہ مطالبہ مسترد کرچکے ہیں۔