واشنگٹن (ہمگام نیوز) امریکی سپریم کورٹ کے ججوں کا کہنا ہے کہ وہ اس وفاقی قانون کی تائید کر سکتے ہیں جو ٹک ٹاک پر اس وقت تک پابندی عائد کرتا ہے جب تک یہ اپیلی کیشن چینی کمپنی بائٹ ڈانس سے علاحدہ نہ ہو جائے۔

ججوں نے ٹک ٹاک کی جانب سے اس قانون کی مخالفت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر یہ معروف ایپلی کیشن چین کی ملکیت مالک کمپنی سے علاحدہ نہ ہوئی تو اس پر 19 جنوری کو پابندی عائد کیے جانے کا امکان ہے۔ یہ بات امریکی جریدے Forbes نے بتائی۔

امریکی سپریم کورٹ نے جمعے کے روز اس حوالے سے زبانی دلائل سنے کہ آیا ٹک ٹاک کمپنی کی اپنی مالک کمپنی بائٹ ڈانس سے علاحدگی یا اس پر پابندی کا متقاضی وفاقی قانون پہلی ترمیم کی مخالفت تو نہیں کرتا!

ٹک ٹاک کمپنی اور اس پر مواد تیار کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ یہ پابندی اس پلیٹ فارم پر آزادی اظہار کو روکنے کے باعث پہلی ترمیم میں موجود ان کے حقوق کی خلاف ورزی کرتی ہے۔ ادھر وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ بائٹ ڈانس کمپنی کی چینی ملکیت ہونے کے پیش نظر یہ پابندی قومی سلامتی کے لیے ضروری ہے۔

سپریم کورٹ کے سربراہ جون روبرٹس کے مطابق وفاقی قانون “ٹک ٹاک” یا اس کا استعمال کرنے والوں کے “اظہار” پر قطعا کوئی بوجھ نہیں ہے۔ جمعے کے روز ان کا کہنا تھا کہ کانگریس اس ایپ پر صارفین کی باتوں پر آمادہ ہے مگر وہ ایسے “غیر ملکی حریف” پر آمادہ نہیں جو ایپلی کیشن استعمال کرنے والوں کی معلومات اکٹھا کرے۔

سپریم کورٹ کے جج بریٹ کاوانو نے ایسی مثالوں کا حوالہ دیا جہاں امریکا نے نشریاتی کمپنیوں کو غیر ملکی حکومتوں کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے روک دیا۔ امریکی حکومت نے ٹک ٹاک کی جانب سے امریکا میں صارفین کی معلومات اکٹھا کرنے پر اندیشوں کا اظہار کیا ہے۔ کاوانو کے مطابق “ایسا لگتا ہے کہ یہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے بڑے پیمانے پر تشویش کا

باعث ہے”۔