نئی دہلی ( ہمگام نیوز) بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق ان قوانین کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ فرد کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور درحقیقت میں یہ سیاسی نوعیت کے ہیں۔
اگرچہ انڈیا میں دلت اکثر اجتماعی طور پر مذہب بدلنے کا اعلان کرتے ہیں لیکن تقریباً 30,000 بالغوں کے سروے کی بنیاد پر 2020 کے پیو ریسرچ سینٹر کے سروے کے مطابق بہت کم انڈین ایسے ہیں جنھوں نے بچپن سے اب تک مذہب تبدیل کیا ہے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ ’ان بالغوں میں سے جو کہتے ہیں کہ ان کی پرورش ہندو کے طور پر ہوئی ہے 99 فیصد اب بھی خود کو ہندو کے طور پر شناخت کرتے ہیں۔
مسلمان کے طور پر پرورش پانے والوں میں سے 97 فیصد اب بھی جوانی میں مسلمان کے طور پر اپنی شناخت کرتے ہیں۔ اور انڈین میں جن کی پرورش مسیحیوں کے طور پر ہوئی تھی، 94 فیصد اب بھی مسیحی ہیں۔‘
سپریم کورٹ کی سینیئر وکیل ورندا گروور کا، جنھوں نے الہ آباد ہائی کورٹ میں ریاست اتر پردیش کے تبدیلئ مذہب سے متعلق قانون کو چیلنج کیا ہے، کا کہنا ہے کہ یہ قوانین ’اس دائرہ کار کو بہت وسیع اور مبہم بناتے ہیں جو کہ دھوکہ دہی اور زبردستی تبدیلئ مذہب کے الزام کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔‘
نجی معاملات میں ریاستی مداخلت
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ریاست کی مشینری کو طاقت دیتے ہیں کہ وہ تعین کریں کہ آیا تبدیلی مذہب قانونی ہے یا نہیں۔ یا (ایک بین المذہب) شادی قانونی طور پر صحیح ہے یا نہیں۔‘
انصاف کے فطری نظام کا تقاضا ہے کہ استغاثہ اپنا مقدمہ ثابت کرے لیکن یہ قوانین انڈیا میں لاگو انسداد دہشت گردی کے قوانین کی طرح مذہب تبدیل کرنے والے شخص سے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کی امید رکھتے ہیں۔
یہ قوانین عام لوگوں کے لیے اپنی مرضی سے بھی مذہب تبدیل کرنے کو مشکل بناتے ہیں۔ اگرچہ یہ قانون مذہب کے نظریے سے غیر جانبدار نظر آتے ہیں، لیکن حال میں ان کی اہمیت اس لیے بہت زیادہ ہو گئی ہے کیونکہ ہندو دائیں بازو کا دعویٰ ہے کہ مسلمان مرد منظم انداز میں ’لو جہاد‘ میں ملوث ہیں جس کے تحت وہ ہندو عورتوں کو محبت کا جھانسا دے کر شادی کر لیتے ہیں۔
گروور کہتی ہیں کہ ’اب یہ قوانین مذہب تبدیل کرنے والے شخص پر یہ ثابت کرنے کی ذمے داری عائد کرتے ہیں کہ یہ دھوکہ دہی یا جبری تبدیلی نہیں ہے۔ میں اگر مذہب تبدیل کرنا چاہتی ہوں تو یہ میری ذاتی پسند ہے لیکن اب اس میں ریاستی مشینری کی طرف سے بے جا مداخلت ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ جس طریقے سے ان قوانین کا مسودہ تیار کیا گیا ہے اس کا مقصد نہ صرف مذہب کی تبدیلی میں رکاوٹیں پیدا کرنا ہے بلکہ پورے عمل کو مکمل طور پر ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ہے۔
خواتین کی مشکلات میں اضافہ
ناقدین کے مطابق یہ قوانین غیر متناسب طور پر خواتین پر اثر انداز ہوں گے، جن کی زندگیوں کو کنٹرول کرنا ان کا مقصد ہے۔ گروور کہتی ہیں ’وہ اس لیے کہ ان قوانین میں یہ فرض کیا جا رہا ہے کہ کوئی بھی عورت جو مذہب تبدیل کر رہی ہے، چاہے وہ شادی کے لیے ہو یا کسی اور وجہ سے، اسے زبردستی یا دھوکہ دہی سے ایسا کرایا جا رہا ہے۔‘
قانونی مسائل پر رپورٹ کرنے والے ’لائیو لا‘ نامی ویب پورٹل سے بات کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق جج دیپک گپتا نے دسمبر 2022 میں کہا تھا کہ ’میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ قوانین اصل وجوہات سے زیادہ سیاسی وجوہات کی بنا پر آرہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’حکومت کو یہ جاننے کی کیا ضرورت ہے آپ کا یا میرا مذہب کیا ہے۔‘
گروور ان کے موقف سے اتفاق کرتی ہیں، ’یہ خالص اور سادہ طورپر سیاست ہے جہاں آپ ایک مخصوص کمیونیٹی کو مسلسل دشمن کی طرح پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اور پھر اس میں ریاست ایک نام نہاد ’سیویئر‘ کے طور پر مداخلت کرتی ہے۔ یہ صرف سیاسی ایجنڈا ہے، اور کچھ نہیں۔‘