تحریر : حفیظ حسن  آبادی

دہشتگردوں کے ایک گروپ نے جو مبینہ طور پر چار آدمیوں پر مشتمل تھا  22مارچ 2024 کو  ماسکو کے نواحی علاقے میں کروکس کنسرٹ ہال میں شام آٹھ بجے اندر داخل ہوکر عام شہریوں پر اندھا دھند فائرنگ کیا جس کے نتیجے میں 145لوگ جان بحق جن میں چھ بچے بھی شامل تھے  اور 551 زخمی ہوئے۔فائرنگ اور یکے بعد دیگرے دھماکو ں سے ہال مکمل طور پر تباہ ہوگیا جس میں مجموعی طور پر ساڑھے نو ہزار آدمیوں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔

اس واقعے کے بعد چاروں حملہ آوربھاگ کر یوکرائن کے طرف جاتے ہوئے سرحد کے قریب پکڑے گئے بعد ازاں انکے سات سہولتکار بھی پکڑے گئے اور سب کے سب اس وقت روس کی حراست میں ہیں۔ابھی تک اس المیے کے چوبیس گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے کہ امریکہ کی طرف سے صفائی پیش کی گئی کہ اس سانحے میں یوکرائن کا ہاتھ نہیں حالانکہ ابھی تک روس کی طرف سے بھی یہ بات رسمی طور پر نہیں کہی گئی تھی کہ اسمیں یوکرائن ملوث ہے یا کوئی اورتاہم یہ خبر ضرور آئی تھی کہ چاروں حملہ آوروں کو یوکرائن کی طرف جاتے ہوئے سرحد کے قریب گرفتار کیا گیا ہے اور اُنکے بیان کے مطابق آدھا پیسہ اُنھیں پہلے دیا گیا تھاجبکہ بقایا اُنھیں یوکرائن میں ملنا تھا۔

امریکہ کا ایساحجلت میں بیان شکوک و شبہات کو کم کرنے کے بجائے اس بات پر یقین کرنے قائل کرنے والا ہے کہ امریکہ کا اسمیں کہیں نہ کہیں ہاتھ ہے جو چور کے داڑھی میں تنکا محاورے کے مترادف جو یوکرائن سے بھی پہلے یوکرائن کی طرف سے صفائیاں پیش کررہاہے اس کے بعد داعش خراسان نے اسکی قبولیت کا دعویٰ کیا جو امریکہ کے صفائی سے بھی زیادہ مشکوک لگا کیونکہ اگر داعش روس پر حملہ کرتا ہے تو اُسکی کوئی ٹھوس بنیاد ہونا چائیے جو کم از کم موجودہ حالات میں کسی طور بھی فراہم نہیں۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو اس وقت روس تمام غیر مسلم ممالک میں سب سے زیادہ اسلام کا قدر کرنے والا ملک ہے۔امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ملکوں میں قران کی بے حرمتی اور محمدﷺ کی شان میں گستاخی عام سی بات ہے جبکہ روس میں قران کی بے حرمتی اور نبیﷺ کی شان میں گستاخی قانوناً جرم ہے۔ فلسطیں جہاں پوری دنیا کے ساتھ عالم اسلام کی نظریں خاص طور پرلگی ہوئی ہیں اور اُن کے لئے خون کے آنسو روتے ہیں جہاں اسرائیل نے سودن میں تیس ہزار سے زائد بمب اور راکٹ گرائے جو اُس شمار سے آٹھ فیصد زیادہ ہے جو امریکہ نے عراق میں چھ برسوں میں گرائے۔

فلسطینیوں کے المیے اور فلسطین مسلے پر روس شروع دن سے یوایس ایس آر کے حمایت کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے یواین سے لیکر دنیا کے ہر فورم پر کھل کر فلسطین کی حمایت اور اسرائیل اور امریکی پالیسیوں کی مخالفت کرتا آرہا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں قران، انجیل اور تورات کے تعلیمات کے برخلاف ہم جنسوں میں شادیوں،جنس کی تبدیلی کے جراحی کی تشہیر و حوصلہ افزائی کی جارہی ہیں جبک روس میں ایسے فرمان الہٰی کے خلاف ا عمال پر قانونی پابندیاں عاید ہیں۔

دنیا میں سب سے بڑی مسجد بھی ماسکو میں واقع ہے جسمیں پانچ وقت کی نمازیں باجماعت پڑھی جاتی ہیں اس کے علاؤہ سانت پیتربورگ سمیت کئی ایک عیسائی اکثیریت شہروں میں بھی مسجدیں آباد ہیں تاتارستان،کبردین بلقاریا،داغستان،چیچنیا،باشکیریا وغیرہ جیسے مسلمانوں کی اکثریت والے صوبوں اورڈویژنوں میں تو مسجدوں کا شمار نہیں پوری روس میں دیگر مذاہب کی طرح مسلمانوں کواپنے مذہبی رسومات اور تہوار و عبادات کرنے میں کوئی امر مانع نہیں تو سوال اُٹھتا ہے کہ داعش کو روس میں اچانک ایسا کیا گناہ کبیرہ نظر آیا جو خوشیاں بکھیرنے والے ہال میں بلا امتیاز موت کے رقص کااسٹیج سجایا؟

غور طلب بات یہ ہے کہ داعش کو اسرائیل میں لاکھوں فلسطینیوں کے اجڑتے گھر،بکھرتی لاشیں،بلکتے بچے کیوں نظر نہیں آئیں اُنھیں روس سے پہلے امریکہ کیوں نظر نہیں آتا ہے جوعراق،شام سے لیکر افغانستان تک لاکھوں انسانوں کا قاتل اور اُنکے شہروں،دیہاتوں،کھیت کھلیانوں پر بمباری کرنے کا براہ راست زمہ دار ہے اُنھیں وہ یورپی ممالک کیوں نظر  نہیں آتے جہاں سال دو میں ایک بار ضروراُنکے نبی کی کارٹونیں بناکر بے حرمتی کی جاتی ہے اور قران کے نسخے جلا کر بدتریں نفرت کا برملا اظہار کیا جاتا ہے؟

اگر اُنھیں یہ سب کچھ نظر نہیں آتا توکوئی بھی شخص اُن مبصرین کی رائے سے متفق ہو گا  جو کہتے ہیں کہ یہ کام داعش کا نہیں بلکہ کسی “اور” کا ہے جس نے داعش کا نام استعمال کیا ہے یاکسی خاص مراعات کے عوض اس کانام استعمال کروایا ہے۔ یہاں ہم یہ بات بھی ہرگز درگزر نہیں کر سکتے کہ امریکہ کے سابق صدر مسٹر ٹرمپ نے کہا تھا کہ داعش ہمارے سی آئی اے نے بنائی ہے۔ لہذا اس انکشاف کے بعد کسی کو کوئی شک و شبہ نہیں ہونا چائیے کہ یہ پدیدہ امریکہ کی ہی تخلیق ہے اگر یہ امریکہ کی تخلیق ہے تو وہ اُسے کہیں بھی کسی بھی شکل میں استعمال کرتا ہے اور استعمال کرنے کی ترکیبیں بھی جانتا ہے۔

چونکہ اس سانحہ کے چند اہم مجرموں کا براہ راست تعلق تاجکستان سے ہے اس لئے یہاں اس نسبت پر مختصر نظر دؤڑانے کی ضرورت ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے سے چند ماہ قبل وہاں سے رپورٹیں آنا شروع ہوگئیں تھیں کہ شام اور عراق سے ہزاروں داعشی پاکستان کے راستے باقاعدہ کانوائے کی صورت اور ہیلی کاپٹرز کے زریعے افغانستان منتقل کئے جارہے ہیں اور ہماری معلومات کے مطابق کوئی بیس ہزار کے قریب داعشی اور بہت سے دیگر مذہبی انتہا پسندشام،عراق،پاکستان اور خود افغانستان سے اکھٹے کرکے روس سے متصل سینٹرل ایشیا ممالک کے سرحد پر لائے گئے تھے۔جنکی وہاں موجودگی پر ایک بار روسی صدر مسٹر پوتن نے بھی میڈیا کے زریعے تشویش کا اظہار کیا تھا۔

 اُن کا وہاں اکھٹا کرنا اس بات کی دلیل تھی کہ امریکہ ایک بڑی غلطی کرنے کی طرف جارہاہے جو وہ افغانستان کو چھوڑ کر روس کیلئے مشکلات پیدا کرنے سینٹرل ایشیا ممالک میں بدامنی پھیلا کراُسے روس تک وسعت دینے کاسوچ بنا رہاہے۔اگر اُنکے تیارکردہ سنیاریو کے مطابق

 حالا ت آگے بڑھتے جو ایک طرف سینٹرل ایشیا اور دوسری طرف یوکرائن کی طرف سے حملہ ہوتا تو روس داخلی دباؤ سے بکھر کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتایوں اُن کے نئے ممکنہ دوست سینٹرل ایشئین ممالک دوسری طرف امریکہ کااتحادی پاکستان کی موجودگی میں لینڈ لاک افغاانستان کسی نئے مزاحمت کا متحمل نہیں ہوسکتاجو طالبان بیس سال تک بیرونی امداد کے بل بوتے پر افغانستان میں لڑے تھے وہ اُس مدد کے بغیر مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔لہذا سینٹرل ایشیا اور روس کو فتع کرکے کسی بھی وقت واپس افغانستان لوٹا جاسکتا ہے سو اس سیناریو میں اس وقت افغانستان سے نکل کربعد میں واپس آنا عین ممکن تھا۔

اس خام خیالی میں مبتلا ہو کرافغانستان کو بے یار و مددگار چھوڑنا امریکہ کیلئے بڑا قضیہ نہیں تھا مگر حقیقت اس کے برعکس نکلا اور روس نے پہل کرکے امریکہ اور اسکے اتحادیوں کا سارا کھیل ہی بگاڑ دیا۔البتہ جو داعشی امریکہ کی نگرانی میں افغانستان کے شمال میں لائے گئے تھے اُنکی ایک بڑی تعداد طالبان حکومت کے آنے کے بعد مہاجرین کی شکل میں سینٹرل ایشئین ممالک میں داخل ہونے کامیاب ہوئی۔ان کی ایک اچھی خاصی تعداد امریکہ اور یورپ منتقل ہونے میں بھی کامیاب ہوگئی ہے۔ جو کسی بھی وقت وہاں (امریکہ اور یورپ میں) اپنے وجود کے” موجودگی” کا احساس دلائیں گے توامریکہ انکے وجود میں آنے سے لیکر تمام “سفر” کی ایک ایک راز سے پردہ اُٹھا کر اپنی ندامت کا اظہار کرے گا مگر اُس وقت بہت دیر ہوچکا ہوگا۔

جبکہ باقی جو یہاں رہ گئے ہیں یا ایک منصوبے کے تحت رہ جائیں گے ان کو سینٹرل ایشیا کے چند ممالک میں کچھ کو مشترک مذہب اور کچھ کومشترک زبان و مشترک ثقافت رکھنے کی وجہ سے گل مل جانے میں زیادہ مشکلات پیش نہیں آئے گی اوروہ وہاں پیسوں کے زور سے اسلام کے نام کو ہتھیار بنا کر انتہائی آسانی سے اپنے پاکٹ بنا کر پردے کے پیچھے رہ کر مقامی لوگوں کو جن کا روس کیساتھ بغیر ویزہ آمد ورفت ہے کے زریعے ایسے واردات کرا سکتے ہیں جو کروکس میں رونما ہوا۔

اسمیں کو ئی شک نہیں کہ آج کا روس ہر شعبے میں بہت آگے جاچکا ہے اور اس دہشتگردی کے پیچھے ایک ایک کردار کو ڈھونڈ نکالے گا اور اُنھیں سزا بھی دے گا۔ اور وقت کیساتھ یہ بھی عیاں ہو جائے گا کہ یہ کونسا “داعش” ہے جسے روس کے بیگناہ خواتین،بچے، بزرگ نظر آئے مگر اُنھیں فلسطین و بلوچستان سے لیکر کردستان تک غیر مسلموں اور اپنے مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کے خون کی ندیاں بہانے والے نظر نہیں آرہے۔

حرف آخر: بظاہر یہ ایک ٹیسٹ کیس تھا کہ روس کے اندر انتشار پھیلانے ایسی وارداتیں کرکے کہاں تک کامیابی حاصل کی جاسکتی ہے ا) لوگ کس حد تک پوتن اور اسکی ٹیم کے خلاف ہوں گے؟ب) کہاں تک پیچھے رہ کر ایسے اقدامات کرانے کی گنجائش موجود ہے؟پ)مسلمانوں کو براہ راست قتل میں ملوث کرکے روس میں مذہبی منافرت کو ہوا دی جاسکتی ہے کہ نہیں جیسے وہ کئی ممالک میں کرتے آئے ہیں۔ت)روس اور سینٹرل ایشئین ممالک کے تعلقات کو کس حد تک ضرر پہنچایا جاسکتا ہے؟وغیرہ وغیرہ روس پولیس نے مجرموں کو رنگے ہاتھوں پکڑ کر اس خوش فہمی کا خاتمہ کیا کہ ایسے واردات کرکے بھاگا جاسکتا ہے اُنکے پاؤں کے نشان جہاں جہاں پائے جائیں گے سب کے نام یک بہ یک معلوم ہوکر عیاں ہوں گے کوئی پیچھے رہ کر چھپنے اور سزا سے بچنے کی خودفریبی کا شکار نہ ہو۔ نہ روس داخلی انتشار کا شکار ہوا نہ لوگ پوتن کے خلاف ہوئے نہ مذہبی منافرت کو ہوا دیا جاسکا اور نہ سینٹرل ایشئین ممالک کے ساتھ تعلقات پر کوئی منفی اثر پڑا بلکہ اس کے برعکس روسی لوگ پہلے سے بھی زیادہ یکمشت ہو گئے ہیں۔

اسمیں شک نہیں کہ اس خونین واقعہ سے روس کے دشمنوں کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہوئے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس طرح کی کوششیں مستقبل میں نہیں کی جائیں گی لیکن ایک بات بالکل طے ہے کہ ان سے نہ روس کے ارادوں پر اثر پڑے گا نہ روسی معاشرے میں سراسیمگی پھیلائی جاسکی گی اور نہ اس سے یوکرائن کے صدر مسٹر زیلینسکی کو کسی بھی میدان میں کوئی ریلیف ملے گا البتہ یہ ضرور ہو گا کہ امریکہ اور اس کے اتحادی اگر روس کیساتھ معاملات کو بات چیت کے زریعے حل کرنا چائیں وہ مزید پیچیدگیوں کا شکار ہوں گے ایسے واقعات روس کو بلیک میل یا مجبور نہیں بلکہ اُسے مزید سخت تریں رویہ اختیار کرنے مجبورکریں گے جس کا اثر ٹیبل پر بات چیت کے دؤران اور میدان جنگ میں تباہ کاریوں کی شکل میں نظرآئے گاجس پر امریکہ اور اُس کے مغربی اتحادی کف افسوس ہی مل سکتے ہیں کیونکہ اس وقت دونوں میدانوں میں روس کا پلڑا بھاری ہے لیکن اس باوجود اُس نے بات چیت کیلئے اپنے دروازے بند نہیں کئے ہیں جو اس کے سیاسی پختگی اور معاملات کو بین القوامی قوانین کے دائرے میں حل کرنے پر رضامندی کا اظہار ہے۔

(ختم شُد)