کوئٹہ (ہمگام نیوز) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے سترہ مارچ دو ہزار پانچ کو ڈیرہ بگٹی میں ہونے والے ریاستی آپریشن کی بھر پور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ڈیرہ بگٹی آپریشن عالمی جنگی قوانین کی خلاف ورزی اور بلوچ نسل کشی کا واضح ثبوت ہے۔ جس میں ستر لوگ شہید کیئے گئے جن میں بیشتر تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان ایک جنگ زدہ خطہ ہے جہاں آئے روز فوجی آپریشنوں کے ذریعے لوگوں کو شہید کیا جارہا ہے، ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو لاپتہ کیا جارہا ہے۔ ان آپریشنوں میں بلوچ عوام کی املاک کو بھی نقصان دیا جارہا ہے لیکن میڈیا بلیک آؤٹ کی وجہ سے بلوچستان میں ہونے والے واقعات کی کوریج نہیں ہو پارہی جس کی وجہ سے ریاستی آپریشن میں آئے روز شدت پیدا ہوتی جارہی ہے۔
مرکزی ترجمان نے اپنے بیان میں تنظیم کے سابق چئیرمین زاہد بلوچ کی ماورائے عدالت گرفتاری کو چھ سال مکمل ہونے پر کہا کہ زاہد بلوچ ایک پر امن سیاسی رہنماء ہے جنہوں نے بی ایس او آزاد کے پلیٹ فارم سے بلوچ نوجوانوں کی سیاسی و شعوری رہنمائی کی۔ جسے اٹھارہ مارچ دو ہزار چودہ کو کوئٹہ کے علاقے سیٹیلائٹ ٹاؤن سے لاپتہ کیا گیا۔ چئیرمین زاہد بلوچ کی جبری گمشدگی کی چشم دید گواہ تنظیم کے سابق چئیرپرسن بانک کریمہ بلوچ ہے جن کے سامنے زاہد بلوچ کو لاپتہ کیا گیا۔
ترجمان کا کہنا ہے کہ چئیرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کے لئے تنظیم نے کراچی پریس کلب کے سامنے چھیالیس روزہ بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا اور تمام پر امن ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے چئیرمین کی بازیابی کے لئے جدوجہد کی لیکن آج چھ سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن زاہد بلوچ کا تاحال کچھ پتہ نہیں۔
ترجمان نے کہا کہ چئیرمین زاہد بلوچ، چئیرمین ذاکر مجید بلوچ، شبیر بلوچ اور دیگر سیاسی کارکنان اور لیڈران کی ماورائے عدالت گرفتاری ایک سیاسی معمہ ہے جس کے لئے ہر طبقہ فکر کے لوگوں کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔