شنبه, نوومبر 23, 2024
Homeخبریںگوادر اور ملحقہ علاقوں میں کرفیو اور پورے بلوچستان کو قید خانے...

گوادر اور ملحقہ علاقوں میں کرفیو اور پورے بلوچستان کو قید خانے میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ بی وائی سی کی پریس کانفرنس

معزز صحافی حضرات

بی وائی سی کی جانب سے تا ہم آپ کی توجہ ایک انتہائی اہم اور سنگین انسانی مسئلے کی جانب مبذول کروانا چاہتے ہیں کہ بلوچستان اس وقت مکمل ایک جنگ زدہ خطہ بن چکا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی 28 جولائی کو گوادر میں ایک قومی اجتماع کا اعلان کیا گیا تھا۔ 20 جولائی سے ریاست پاکستان نے بلوچ قومی اجتماع کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔ ریاست پاکستان اپنے تمام مشینری اور طاقت اس پر امن عوامی اجتماع کو روکنے کے لیے استعمال کر رہی ہے اور بد ترین انسانی حقوق کی پامالیوں کا مر تکب ہو رہی ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی جانب سے 28 جولائی کو گوادر میں بلوچ قومی اجتماع کا انعقاد کا اعلان کیا گیا تھا۔ ریاست پاکستان نے بلوچ قومی اجتماع کو روکنے کے لیے 26 جولائی سے ہی گوادر سمیت قریب و جوار کے تمام علاقوں میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ کر دیا جو تاحال جاری ہے۔ 26 جولائی سے گوادر سمیت مکر ان کے بیشتر علاقوں میں انٹریٹ مکمل طور پر بند ہے۔

گوادر میں نہ کسی کو اندر جانے کی اجازت دی جارہی ہے اور نہ باہر آنے کی اجازت دی جارہی ہے۔

جولائی کے دن جب گوادر شہر کے عوام ریاستی دہشتگر دی، طاقت اور خوف کے سامنے پر امن طور پر ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکل کر بلوچ راجی مچی کے لیے پہنچے 28 تو ریاستی فوج نے پر امن شر کا پر اندھادھند فائرنگ کی جس سے ایک نوجوان موقع پر ہی شہید ہو گیا اور سات زخمی ہو گئے جن میں دو کی حالت اب بھی خطرے میں ہے۔ اس وحشت اور درندگی کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں بلوچ راجی مچی کے شرکاء پر امن رہے اور راجی مچی کو دوبارہ جاری کیا گیا ہے۔

اس ریاستی دہشتگردی کے خلاف بلوچ یکجہتی کمیٹی نے بلوچ راجی مچی کو دھرنے میں تبدیل کیا اور دھرنے کے دو مطالبات رکھے۔ ایک، بلوچستان کے تمام شاہراہوں کو کھول کر بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے والے تمام قافلے جو اس وقت ہزاروں کی تعداد میں بلوچستان کے مختلف علاقوں میں زبر دستی روکے گئے ہیں، انہیں با حفاظت گوادر آنے کی اجازت دی جائے۔ دوسری، وہ تمام شرکاء جنہیں بلوچستان اور کراچی کے مختلف علاقوں سے گرفتار کیا گیا ہے، انہیں رہا کیا جائے۔

لیکن طاقت اور وحشت کے غرور میں غرق ریاست اور اس کے اداروں نے دھرنے میں بیٹھے پر امن شرکاء جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی تھی، کے مطالبات سننے کے بجائے 29 جولائی کی صبح ریاستی فوج نے چاروں طرف سے دھر ناگاہ کو گھیر کر اندھادھند فائرنگ شروع کر دی اور لاٹھیوں سے پر امن خواتین اور بچوں پر حملہ آور ہوئے جس میں خواتین و بچوں سمیت متعدد شر کاء زخمی ہوئے۔ وحشت اور درندگی کی انتہا یہ رہی کہ زخمیوں کو وہاں کسی مریض کو جانے نہیں دیا گیا۔ لا ایمبولینس کو اس جگہ تک آنے کی اجازت دی گئی۔ جی ڈی اے ہسپتال گوادر کو سیل کر دیا گیا اور نمیوں کو اٹھاتے رہے۔ سینکڑوں پر امن شرکاء کو گرفتار کیا گیا ، راجی مچی کے لیے اسٹیج کے طور پر استعمال ہونے والے ٹرک کو نظر آتش کیا گیا اور اس کے قریب شرکاء کی جتنی بھی گاڑیاں کھڑی تھ ر آتش کر دیا گیا اور نقصان پہنچایا گیا۔ اس کے بعد گوادر کے گھر گھر میں چھاپے مارے گئے، لوگوں کی گاڑیاں اور قیمتی سامان کو نقصان پہنچایا گیا جبکہ نیشنل پارٹی کے رہنما اشرف حسین سمیت سینکڑوں لوگوں کو ان کے گھروں سے جبری طور پر گمشدہ کیا گیا۔

29جولائی کی رات کو جس وقت دھرنا جاری تھا وہاں ریاستی خفیہ اداروں نے ڈیتھ اسکواڈ کے دو مسلح کارندوں کو دھرنے میں بھیج کر بلوچ یکجہتی کمیٹی کی لیڈرشپ کو نشانہ بنانے کی 28 ٹاسک دی تھی لیکن خوش قسمتی سے وہاں موجود عوام نے ان کی شناخت کی تھی کہ یہ ڈیتھ اسکواڈ کے لوگ ہیں جس پر دھر نا منتظمین نے ان کی تلاشی لی تو ان سے پستول ، واکی ٹاکی اور شناختی کارڈ برآمد ہوئے، جس نے اپنے ویڈیوں میں اعتراف کیا کہ میں ایم آئی کا اہلکار ہوں اور مجھے یہاں بلوچ راجی مچی کے لیڈر شپ کو مارنے کی ٹاسک دی گئی تھی۔ جبکہ گوادر میں 28 جولائی کی صبح سے اس وقت 48 گھنٹے سے زائد کا وقت گزر چکا ہے اور موبائل سیٹ ورک ناحال بند ہے جس کے سب ہمیں وہاں ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں سنگین خدشات لاحق ہیں۔ سب سے خطر ناک بات یہ ہے کہ بلوچ بھجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کیا گیا ہے اور پولیس و انتظامیہ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کی گرفتاری کو ظاہر نہیں کر رہی ہے جس کے زندگیوں کو متعلق ہمیں شدید خدشات لاحق ہیں۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت کو گرفتار کر کے بلوچستان حکومت د ریاست ایک سنگین جرم کا مر تکب ہو رہی ہے جس کے رد عمل اور نتائج کا انہیں ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں ہے۔

بلوچ راجی مچی کے لیے بلوچستان کے مختلف علاقوں کے قافلے کوئٹہ میں یکجا ہو کر 27 جولائی کی صبح کو ئٹہ سے گوادر کے لیے روانہ ہوئے۔ کوئٹہ سے روانہ ہوتے ہی انہیں ریاستی فوج کی جانب سے روکا گیا اور رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ قافلے میں تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے عوام نے رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے مستونگ پہنچ گئے۔ مستونگ میں ریاستی فوج نے قافلے پر سیدھی فائرنگ کی، جس سے 14 شرکاء زخمی ہو گئے اور تین کو گولیاں سر پر لگیں۔ وہ اس وقت شدید زخمی حالت میں ہیں اور کوئٹہ ٹراما سینٹر میں زیر علاج ہیں۔ اس کے بعد فوج نے قافلے کی تمام گاڑیوں کے ٹائروں کو برسٹ کر دیا جس سے تمام گاڑیوں کے ٹائر ناکارہ ہو گئے، جبکہ سیدھی فائرنگ کی وجہ سے تمام گاڑیوں کے شیشے ٹوٹ چکے ہیں۔

بلوچ قومی اجتماع کے لیے جانے والا اس قافلے کے ہزاروں لوگ گزشتہ تین دنوں سے مستونگ میں دھر نادیے بیٹھا ہے۔ تلار گوادر سے 60 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے جہاں ریاستی فوج کا بہت بڑا کیمپ اور چیک پوسٹ ہے۔ بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے والے وہ تمام قافلے جو تلار پہنچ چکے ہیں، انہیں 26 جولائی سے تلار چیک پوسٹ پر روکا گیا ہے۔ اس وقت سینکڑوں گاڑیوں پر مشتمل ہزاروں لوگوں کو بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے کے لیے تلار چیک پوسٹ پر بندوق کے زور پر یر غمال بنایا گیا ہے ، جبکہ متعدد لوگ طبیعت خراب ہونے کے باعث واپس آگئے ہیں۔

تلار سے واپس آنے والے لوگوں نے ویڈیوز اور فوٹیجرز بنائی ہیں جس میں دکھایا گیا ہے کہ کس طرح ریاستی فوج لوگوں پر تشدد کر رہی ہے ، سیدھی فائرنگ کر رہی ہے اور آنسو گیس کے شیل پھینک رہی ہے، جس سے متعدد لوگ زخمی اور دو لوگ شہید ہونے کی اطلاعات ہیں۔

لیکن انٹر نیٹ اور موبائل نیٹ ورک بند ہونے کی وجہ سے ہمیں زخمیوں اور نقصانات کی مکمل تفصیلات نہیں پہنچ رہی ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ وہاں حالات شدید خراب ہوں گے اور راجی مچی کے ہزاروں شرکاء کی زندگیاں خطرے میں ہیں۔ ہمیں ہزاروں لوگوں کی زندگیوں کے بارے میں شدید خطرات لاحق ہیں۔ بلوچ راجی مچی میں شرکت کرنے کے لیے کراچی اور حب کے قافلے 27 جولائی کی صبح روانہ ہوئے لیکن انہیں کراچی یوسف گوٹھ اور حب باوانی کے مقام پر روکا گیا تھا۔ تقریبا 12 سے 14 گھنٹے بعد انہیں جانے کی اجازت دی گئی لیکن 200 کلومیٹرز کے بعد ہنگول بزی ٹاف کے مقام پر انہیں دوبارہ روکا گیا ، شرکاء پر فائرنگ کی گئی اور تشدد کیا گیا جبکہ تمام گاڑیوں کے ٹائر برسٹ کیے گئے اور انہیں آگے جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

اس قافلے میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل ہے جو ایک رات ہنگول میں گزارنے کے بعد واپس اوتھل زیرو پوائنٹ آگئے۔ ایک دن انہوں نے وہاں دھر نادیا اور کل انہوں نے گڈانی کر اس پر دھر نادیا۔ بلوچ راجی مچی کو ناکام بنانے کے لیے گزشتہ ایک ہفتے سے بلوچستان کے متعدد علاقوں میں راجی مچی کی تیاریوں میں مصروف پر امن کارکنان کے گھروں میں چھاپے مارے گئے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اس وقت سینکڑوں لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جن کے متعلق ہمیں کوئی معلومات فراہم نہیں کی جارہی ہیں۔ ہمارے معلومات کے مطابق 150 سے زائد لوگ اس وقت ہدہ جیل کوئٹہ میں غیر قانونی طور پر بند ہیں لیکن ہمیں ان کے متعلق بھی کسی قسم کی معلومات نہیں دی جارہی ہیں۔ جبکہ بلوچستان کے متعدد علاقوں میں پر امن کارکنان پر درجنوں جھوٹی ایف آئی آر ز درج کی گئی ہیں۔

معزز صحافی حضرات

گزشتہ 72 گھنٹوں سے زائد عرصے سے پورا بلوچستان جنگ زدہ ہے، لیکن انتہائی افسوس کا مقام ہے نام نہاد میں اسٹریم کے صحافی اور صحافتی ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور صحافتی شعبے کے لیے انتہائی شرم کا مقام ہے کہ چند ایک حقیقی صحافیوں کے علاوہ کوئی بھی نام نہاد مین اسٹریم صحافی اور میڈیا نے اس انتہائی سنگین مسئلے پر ایک لفظ بھی نہیں بولا ہے۔ تمام نام نہاد مین اسٹریم کے صحافی خاموش ہیں اور اس کے برعکس قاتلوں اور جابروں کو اپنے ٹاک شوز میں دعوت دے کر مظلوموں کے موقف کو سامنے لانے کے بجائے ظالموں کے موقف کو سامنے لا رہے ہیں۔

بلوچستان کے معاملات پر پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا اور صحافی بھی ریاست اور ریاستی نمائندوں کے کام کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر بلوچستان کے متعلق صحافتی اداروں کارویہ یہ رہا تو ہم بلوچستان میں مقامی پرنٹ میڈیا کے علاوہ باقی تمام نام نہاد مین اسٹریم کے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈ یا کا مکمل طور پر بائیکاٹ کریںگے۔ ہم اس وقت بلوچستان کے سنگین انسانی حقوق کی صور تحال پر تمام بین الاقوامی صحافتی اداروں اور صحافیوں سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ صحافتی اقدار اور اصولوں کا احترام کرتے ہوئے بلوچستان کے جنگ زدہ حالات، گوادر میں مکمل کرفیو کے نفاذ اور ریاستی پاکستان کے بربریت اور مظالم کے خلاف آواز اٹھائیں اور بلوچستان کو کوریج دیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز