ماضی میں ہم سیاسی بیٹھکوں میں سیاسی رفقاء اور ہم خیال دوستوں کے ساتھ نشست کرتے ،سیاسی گفتگو ہوتی، تاریخی واقعات اور ان واقعات کی بلوچستان پر پڑنے والے اثرات پر سیر حاصل گفتگو کی جاتی، محور ہمیشہ بلوچستان ہوتا اور بلوچ قومی آزادی کی حصول کی راہیں ہموار کرنے پر مختلف آراء سامنے آتے، جن میں دشمن اور دشمن کی حواری و مددگار بلوچوں کے حوالےسے بات ہوتی اور اس بات پر سوچا جاتا کہ کس طرح بلوچ سیاسی افق پر ایک مضبوط و متحد فلیٹ فارم کا قیام ممکن بنایا جائے تاکہ دشمن اور دشمن کے حواریوں کا بلوچستان پر سیاسی اثر کو کم کرتے ہوئے لوگوں کو آزادی کی خاطر ہونے والی جد و جہد کی طرف راغب کیا جائے، اس وقت بلوچ ایک قوم ہوتا تھا، دشمن ایران اور پاکستان ہوتے اور دونوں ممالک بلوچ پرقابض قوتوں کے طور پر دیکھے جاتے۔
اس وقت جب آزادی کے لئے عوامی رائے عامہ کو اپنے حق میں موڑنے کے بارے مختلف النوع حکمت عملیوں اور عام بلوچ عوام کو انگیج رکھنے کی خاطر سر جوڑے جارہے تھے تو اس وقت تمام بلوچ سیاسی کارکنوں اور آزادی کے متوالوں کے لئے دشمن وہ تھے جو بلوچ قومی سرزمین پر بزوز شمشیر قابض تھے، اگر مختصر پس منظر پر بات کریں تو ایران کو برٹش بادشاہت کی اتحادی و علاقائی ہم خیال ہونے کے بنیاد پر برطانوی حکومت نے گولڈ اسمتھ لائن کھینچ کر بلوچ علاقے تحفے کے طور پر بخش دیئے اور اسکے بعد پھر انیس سو سینتالیس کو برطانیہ نے اپنی بنائی ہوئی ریموٹ کالونی یعنی پاکستان کی نئی نویلی ریاست کو معاشی آکسیجن کی بندوبست کے سہارے کے واسطے ریاستِ قلات و ملحق علاقوں پر قابض ہونے کے لئے پاکستان کی بھرپور سیاسی و عسکری بنیادوں پر مدد کی، ازاں بعد پھر برطانوی ریموٹ کالونی پاکستان اور اسکے اتحادی ایران نے غالباً 1959 میں اس بندربانٹ سے کھینچی ہوئی لکیر کو عالمی سرحد کے طور پر قبول کیا اور دوسری طرف بلوچ قوم اور اسکے ہمسائے افغان قوم کو باہم دست و گریبان رکھنے اور پاکستانی و ایرانی قبضہ گیریت کے خلاف سیاسی فکر کو نشونما پانے سے روکنے کے لئے ایک اور سازش رچائی گئی اور افغان کے تاریخی علاقوں کو بلوچستان اور بلوچ تاریخی علاقوں کو افغانستان میں شامل کرنے کے ساتھ ساتھ افغان زمین کا ایک بہت بڑا حصہ الگ کرکے ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی۔
ایرانی ریاست کی اپنی ایک تاریخی پس منظر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی، عسکری و معاشی بندوبست کے حوالے سے بھی اہمیت کے حامل رہا ہے، دوسری طرف اپنی مفادات کو محفوظ بنانے کی خاطر پاکستان کو نہ صرف مغربی قوتوں کی آشیرباد حاصل رہی، بلکہ اسی دوران پاکستان کے لئے بطور ریلیف بلوچ اور افغان علاقوں کے بندر بانٹ کے ساتھ دونوں اقوام بلوچ اور افغان اس دورانیے میں زیر عتاب بھی رہے ،اتحادی بھی رہے اور ایک دوسرے کے مددگار اورباہمی عزت و احترام کے فضا کو ہمیشہ برقرار رکھا۔
یہ اس بات کو اور تقویت بخشتی ہے کہ افغان انتظامی حکومتوں کی نشیب و فراز کی تمام ادوار میں جو بیانیہ برقرار رہا ہے وہ یہی ہے کہ وہ کسی بھی صورت میں اس غیر فطری سرحدی لکیر یعنی “ڈیورنڈ لائن” کو نہیں مانتے، پاکستان مخالف اور معاندانہ سوچ کے حامل افغان انتظامی حکومتوں کے باوجود جو پاکستانی اتحادی حکومتیں خاص طور پر انیس سو چورانوئے کی طالبان انتظامی حکومت کابل میں برسرِ اقتدار آئی، اس دوران بھی ڈیورنڈ لائن کو باضابطہ طور پر سرحدی لکیر کے اعتبار سے قبولیت کا مسئلہ نہ صرف سرد مہری کا شکار رہا بلکہ پاکستانی ایجنسیوں اور سیاست دانوں کے کے بارہا منت کے باجود طالبان اس امر پر راضی نہ ہوئے اور دیگر افغان انتظامی حکومتوں نے کسی بھی حوالے سے اسے قبول نہیں کیا اور اسکے بعد امریکی حملے اور طالبان کے جانے کے بعد جو حکومت آئی حامد کرزئی اور اشرف غنی کی وہ بھی اسی پرنسپل اسٹانس پر قائم رہے اور پھر جب امریکی انخلاء کے بعد واپس طالبان افغانستان کے حکومتی انتظام کو سنبھالنے لگے تو ہم نے دیکھا کہ پاکستان کی طرف سے انکا وہ ماضی کی گرمجوشی کا رویہ بالکل مانند پڑچکا ہے اور اسکے بعد بہت ساری ڈویلپمنٹس بھی دیکھنے میں آئیں لیکن افغان نائب وزیر خارجہ عباس ساتکزئی کی طرف سے ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کیا گیا کہ وہ ڈیورنڈ لائن جیسی لکیر کو نہیں مانتے۔ افغانستان کی انتظامی حکومتوں کا یہ رویہ یہی درشاتا ہے کہ وہ اس معاملے کے لئے متاثر فریقین کے ساتھ ہیں اور بلوچ اس غیر فطری و زبردستی کی بندر بانٹ کا سب سے بڑا متاثرین ہے، تو فطری طور پر اگر کوئی کسی ایسے مسئلے پر بات کرے جو کہ بلوچ کا بھی بنیادی مسئلہ ہو تو پھر اس میں ایک ہمدردی یا دوستی جو بھی کہہ لیں، کا تاثر ضرور ابھرتا ہے، بلوچ سرزمین کا ایک حصہ افغانستان میں ہونے کے باوجود وہاں بلوچ قوم کی ارادتاً یا سسٹمیٹک بنیادوں پر نسل کشی نہیں کی جارہی، زبان و ثقافت کے حوالے سے بلوچ کو مسائل درپیش نہیں ہیں، اسی لئے بلوچ اپنے ہمسایہ افغانستان، اور خود بلوچستان دونوں کو عالمی سازشوں کا شکار اور متاثرین سمجھتی ہے۔
اس بات سے کوئی مفر نہیں کہ بلوچستان منقسم ہے البتہ اس تقسیم در تقسیم کے پیچھے کارفرما سیاسی و توسیع پسندانہ عزائم سے قطع نظر بعض اوقات یار دوست ایران کی بلوچستان پر قبضے کی اپنی لیت و لعل، عذر اور بہانوں کو افغانستان کے زیر انتظام بلوچستان سے ملا دیتے ہیں جو کہ وہ خود بھی جانتے ہیں کہ نہ منطقی ہے اور نہ ان دونوں میں کوئی یکسانیت ہے۔ لیکن گروہی مفادات کی تحفظ کے لئے بلوچ اجتماعی مفادات کو داؤ پر لگایا جا چکا ہے، بلوچستان عملی طور پر تین حصوں میں تقسیم ہے۔
:پاکستان،ایران اورافغانستان
بنیادی طور پر بلوچستان سرد جنگ سے پہلے کی متحارب عسکری سرگرمیوں کی وجہ سے عالمی قوتوں کے زیرعتاب رہا ہے، دو قطبی دنیا میں جہاں عالمی سیاست اور رشتے ایک طرف سویت بلاک اور دوسری طرف برٹش اور امریکی بلاک کے مابین بھٹ چکے تھے تو بلوچستان کی اہمیت سیاسی جغرافیے اور عسکری سکیورٹی کے حوالے سے روز بروز بڑھتی جارہی تھی اور مغربی بلاک نے شاید انہی بنیادوں پر بلوچستان کی اجتماعی مرکزیت کو ختم یا کمزور بنانے کے واسطے اسے اپنے اتحادیوں میں بندر بانٹ کو مناسب سمجھا کیونکہ اندیشہ تھا کہ سویت یونین بلوچستان کے گرم پانیوں یعنی وسیع و عریض ساحل سمندر کے لئے یا تو اس علاقے کو اپنے زیر اثر لائے گا یا پھر بلوچ قوم سے اتحاد کرکے یہاں اپنی طاقت کی دھاک بٹھاکر پھر ایران اور اسکے بعد مڈل ایسٹ اور افریقہ سمیت دیگر ملحقہ علاقوں میں اپنی اثر رسوخ بڑھانے کی کوشش کریگا تو اسی واہمے کی بنیاد پر بلوچستان جیسے وسیع و عریض سرزمین کو مرکزیت میں ڈھلنے سے پہلے دیگر قوموں کے انتظام کے زیر اثر کرنا بہتر سمجھا گیا۔
تاریخی واقعات میں جائے بغیر کہ کس نے کیا کیا کب کیا اور کیسے کیا اس حوالے سے بلوچستان کے تاریخی پس منظر پر لکھا ہوا بہت کچھ دستیاب ہے اور اب بلوچ تاریخ دان مزید مخفی حقائق کو کیسے طشت از بام کریں گے وہ دیکھنے والی بات ہے۔لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ایران سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں، ہمیں سے مراد کون یعنی “بلوچ” پھربلوچ تو ایران میں روزانہ کی بنیادوں پر نسل کشی جیسے سنگین سیاسی جرائم کا سامنا کررہے ہیں، اگر یہ لوگ انفرادی یا گروہی مفادات کی تحفظ اور ایرانی باجگزاری کے خاطر ایسا کہہ رہے ہیں تو ٹھیک ہے وگرنہ بلوچ کو اجتماعی بنیادوں پر وجود کا مسئلہ ایران و پاکستان دونوں سے در پیش ہے، اور پھرعالمی سطح پر ہم انفرادی حوالے سے اگر کوئی اہمیت رکھیں بھی تو اجتماعیت کی بنیادوں پر ایک قوم ہونے کے باوصف وگرنہ ہماری انفرادی حیثیت کی کوئی خاص اہمیت نہیں رہتی، اس بیانیے سے بلوچ قومی اجتماعی جد و جہد یعنی “بلوچ قومی سوال” کو کثیر الجہتی نقصان پہنچے گا۔
پہلی بات تو یہ کہ ایک طرف کے لوگ جب دوسرے طرف کی قابض کو اپنے لئے مسئلہ نہیں سمجھیں گے تو اس میں خود بلوچوں کے اندر آپسی نفرت کی فضا پروان چڑھے گا اور بحیثیت قوم ہم خود ایک دوسرے کے خلاف ایک یا دوسرے قابض کے ہاتھوں میں استعمال ہونگے۔ دوسری جانب بلوچ جد و جہد کی مرکزی و بنیادی نقطہ یعنی “بلوچ قومی سوال” اور اسکی بنیادی اہمیت، وقعت اور وثوقیت کو گزند پہنچے گا۔ تیسری بات یہ کہ عالمی سطح پر بلوچ جد و جہد میں در آنے والے گروہی مفادات کے تحت پروان چڑھنے والے نفسیات کی بنیاد پر ایک طرف کے قابض کو اپنے لئے مسئلہ نہ سمجھنا ” بلوچ قومی سوال” کی سنجیدگی و مرکزیت پر سوالات کھڑا کردیگا، کہ آیا ان (بلوچ) میں سیاسی بالیدگی و سنجیدگی کا کوئی جوہر موجود ہے کہ وہ ایک خودمختار ریاست کی بندوبست عالمی قوانین کے تحت چلاسکیں۔
بلوچستان ایک وحدت ایک اکائی اور ایک سرزمین مختلف قوتوں کے زیر اثر ہے اور اس غلامی کی بلوچ کے اجتماعی زندگی پر مختلف النوع اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔پاکستانی مقبوضہ بلوچستان میں کیا کچھ ہوتا ہوا آرہا ہے وہ ہم اپنی نظروں سے دیکھ رہے اور از خود اس کو تجربہ بھی کررہے ہیں لیکن ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں جس طرح بلوچوں کی نسل کشی کی جارہی ہے، بلوچوں سے انکے زبان ثقافت اور مذہبی شناخت چھینا جارہا ہے وہ پاکستانی ریاستی جبر سے کہیں بڑھ کر ہے۔ ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں بلوچ شناخت پر بھی پہرے بٹھائے گئے ،وہاں ایک عام بلوچ کو اپنی مرضی کے مطابق اپنے بچوں کا نام تک رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔
ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں عام بلوچوں کو منشیات فروش اور دہشت گرد بتا کر سرعام کرینوں سے لٹکا کر پھانسی دی جاتی ہے، ریاستی کارندے (ماہو بلوچ جنسی تشدد کے واقعے کی طرح) بلوچ لڑکیوں کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور پھراس پر احتجاج کرنے والے بلوچ سیاسی کارکنوں پرذاھدان میں فائر کھول کر سو سے زائد بلوچوں کو دن دھاڑے گولیوں سے بھون کر شہید کیا جاتا ہے۔ اب بلوچستان پر ایک کانفرنس ہورہی ہے اسی کانفرنس کے دوران ایرانی مقبوضہ بلوچستان میں بلوچوں پر ایرانی جارحیت کے خلاف بات کرتے ہوئے ایک بیرونی اور غیر جانبداروغیرقوم صحافی کارلوس زروتوزا بات کرتے ہوئے بلوچ قوم کے خلاف ایران و پاکستان کے جنگی جرائم کو دنیا کے سامنے آشکار کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دونوں مقبوضہ بلوچستان کے بہادر بیٹیوں اور خواتین کی مثال دیتے ہیں کہ کس طرح انہوں نے دونوں قابضین کے خلاف جد و جہد کے رہنمائی کی، اور کہتے ہیں کہ بلوچ پر ایران اور پاکستان میں کیا کیا جبر کیا جارہا ہے اور کیسے ان دونوں ممالک کی طرف سے بلوچ مسئلے کو دنیا کے آنکھوں سے اوجھل رکھنے کے لیئے میڈیا بلیک آؤٹ کی پالیسی اپنائی گئی ہے، لیکن عین کچھ لمحوں بعد غالباً کسی پوچھے گئے سوال کے جواب میں ایک بلوچ آزادی پسند پارٹی کے سربراہ مائیک پر آکر کہتا ہے کہ “ہمارا ایران و افغانستان سے کوئی تصادم، تنازع اور لڑائی نہیں ہے” کیا واقعی میں نہیں ہے؟؟
ہمارا سیاسی کارکن اکثریتی اعتبار سے جھنڈا بردار تھا اور جھنڈا اٹھا کر تابعدار رہنے پر ہی اکتفا کرتا رہا اور آج بھی شاید ہماری نفسیاتی کیفیات میں وہی جھنڈا برداری اور تابعداری کا عنصر موجود ہے، وگرنہ بھری محفل میں بلوچ قومی نسل کشی اور تحریک کے حوالے سے منعقد کی گئی ۔کسی کانفرنس میں دیگر اقوام کے سامنے بلوچ اجتماعی جد و جہد اور بنیادی “بلوچ قومی سوال” کا اس طرح جنازہ نکالنے کی کسی آزادی پسند بلوچ کی ہمت ہرگز نہ ہوتی، بلوچ کے حوالے سے افغانستان اور ایران کو ملا کر محض اپنی گروہیت پسند مفادات کو چھانے کی کوشش کی گئی وگرنہ ایک سیاسی کارکن ضرور یہ سوچتا کہ بلوچستان کی اس مثلث منقسم جغرافیے میں کون کس کے ساتھ ظلم و جبر کے پیمانے کی مشابہت رکھتا ہے، سیاسی کارکن کی بانجھ پن یہی ہے کہ اسے سوال اٹھانے کی بنیادی حقوق سے نہ صرف محروم رکھا جائے بلکہ سوال اٹھانے کی روایت کی ہی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اسے آہستہ آہستہ سوال کرنے کی بنیادی وصف و اہمیت سے بیگانہ کیا جائے۔
اور ستم ظریفی کا عالم دیکھیے کہ پیچھے آویزاں کئے گئے بینرز میں سے ایک پر جلی حروف کے ساتھ لکھا ہوا ہے Baloch Missing Persons یعنی بلوچ گمشدہ لوگ، بات پھر وہی پرانی اور بنیادی نقطہ “بلوچ قومی سوال” پر آکر ٹہرجاتا ہے، بلوچ سرزمین غلام ہے، بلوچ قوم غلام ہے، بلوچ جد و جہد کررہا ہے، بلوچ مررہا ہے اور بلوچ غائب ہے، یعنی ایک حاشیہ چھوڑا گیا یہ ہمت بھی نہ ہوئی کہ لکھ دیں ہم کن بلوچ غائب شدگان کی بات کررہے ہیں، ایران کے ہاتھوں یا پاکستان کے ہاتھوں؟ بقول داغ دہلوی؛ خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں اس بینر پر کہیں بھی یہ نہیں لکھا گیا کہ پاکستان کے ہاتھوں اغواء شدہ بلوچ غائب لوگ، اصولاً تو یہی لکھنا چاہئے تھا کہ Baloch Missing Persons Abducted by Pakistan بنیاد وہی اجتماعیت ہے ،وہی بلوچ قومی سوال ہے اور وہی متحدہ بلوچستان کی بحیثیت ایک وحدانیت و اکائی کا ہے، لیکن مفاد شاید سب سے بڑا خدا ہے، اور اسی مفادات کی چکی میں اب بلوچ اجتماعیت اور قومی سوال کو پیسا جارہا ہے تاکہ بلوچ قوم کی بنیادی سوال یعنی بلوچ سرزمین کی وحدانیت کے نقصان پر یہ لوگ اپنی قد کاٹ بلند کرسکیں۔