یکشنبه, اکتوبر 6, 2024
Homeآرٹیکلزہم اپنے جذباتی ذہانت کے پیمانے کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

ہم اپنے جذباتی ذہانت کے پیمانے کو کیسے بڑھا سکتے ہیں؟

گزشتہ سے پیوستہ

تحریر ۔ ۔ نوبت مری

آئین سٹائین کہتے تھے کہ اگر مجھے ایک مسئلے کا حل نکالنے کے لیے ایک گھنٹے کا وقت دیا جائے تو میں پچپن(55) منٹ اس مسئلے کو سمجھنے میں صرف کردونگا اور پانچ منٹ اس کو حل کرنے میں۔ آئین سٹائین کے مطابق ہر مسئلے کا 95 فیصد حل اس مسئلے کو سمجھنے میں پنہاں ہے۔ جب تک آپ مسئلہ کو سمجھ نہیں پاتے اس کا حل ممکن نہیں ہوتا۔

اسی طرح جذباتی زہانت کے پیمانے کو بڑھانے اور فروغ دینے کے لیے پہلے اس کو سمجھنا ضروری ہےکہ جذباتی ذہانت کیا ہے اور کیسے یہ ہمارے زوزمرہ کے خیالات احساسات دوسروں کے ساتھ روابط اور ان احساسات اور خیالات کے زیر اثر ردعمل پر حاوی ہوتا ہے۔ امیگڈیلاہائی جیک، جس پر ہم نے گزشتہ مضمون پر بات کی، کے زیر اثر کیے گیے فیصلے اور ردعمل بعد میں ندامت اور مایوسی کا موجب بنتے ہیں اور کس طرح یہ مایوسی اور ردعمل کا تسلسل رفتہ رفتہ انسان کو ذہنی مشکلات کا شکار بناتے ہیں ۔

جذباتی ذہانت کیا ہے؟ ہم نےگزشتہ تحریر میں امیگڈیلا ہائی جیک سمیت اس کے محرکات اور اس کے زیر اثر ردعمل پر دخل اندازی اور اس کے انسان کے سماجی روابط سمیت ذہنی اور جسمانی طور پر چھوڑے گئے منفی اثرات پر بات کی۔

اس مضمون میں ہم جذباتی ذہانت کے پیمانے کو کیسے بڑھا سکتے ہیں فروغ دے سکتے ہیں اور جذبات احساسات کو مثبت طریقے سے قابو میں کیسے لا یا جا سکتا ہے، اس پر بات کریں گے ۔

جذباتی ذہانت کے پیمانے کو بڑھانے کے لیے چار کلیدی صلاحتییں اہم ہیں جس میں سب سے پہلا قدم اپنے جذبات احساسات کو سمجھنا ہوتا ہے کہ یہ کیسے پیدا ہوتے ہیں اور وہ کونسے عوامل اور محرکات ہیں جن کی وجہ سے دماغ کی امگیڈیلا نامی حس ان طاقتور جذبات اور احساسات کو پیدا کرتا ہے اور اس کے ذہنی جسمانی اور سماجی روابط و رشتوں پر کیا اثرات پڑتے ہیں انھیں سمجھنے کو خود آگاہی کہا جاتا ہے جس پر ہم نے پہلے مضمون میں بات کیے اس مضمون میں اس کے دیگر گلیدی اجزا پر بات کریں گے جن میں سے اہم درج ذیل ہیں

خود انتظامی self Regulation

ہم ٓاہنگی پیدا کرنے کی صلاحیت Empathy

سماجی بیداری social skills

جذباتی ذہانت کے پیمانے کو بڑھانے اور فروغ کے لیے دوسرا قدم تناو کو کنٹرول کرنا سادھنا یا منظم کرنا ہے اٹیجمنٹ تھیوری جسے معروف برٹش سائکالوجسٹ جان باولبی نے 1969-82 میں متعارف کیا اور فروغ دیا باولبی کے مطابق آپ کے موجودہ جذبات کو ہینڈل کرنے کی صلاحیت آپ کی ابتدائی زندگی کے عکاس ہیں، غصہ، خوف، خوشی وغیرہ کو مینیج کرنے کی صلاحیت آپ کی ابتدائی زندگی کی معیار اور تجربات پر منحصر ہے کہ آپ کی ابتدائی زندگی میں پرورش کرنے والا آپ کے جذبات کو کس قدر سمجھا اور انھیں کس قدر اہمیت دیا اور مثبت یا منفی جذبات کو ریگولیٹ کرنے میں کس قدر مددگار ثابت ہوا، باولبی کہتے ہیں کہ ابتدائی زندگی میں اگر آپ کے تجربات اور معیار زندگی تلخ، مبہم یا تہدیدی رہا تو عین ممکن ہے کہ آپ نے اپنے آپ کو اپنے جذبات و احساسات سے علحیدہ کیا ہوگا ۔

اپنے احساسات کے ساتھ روابط رکھنے کی اہلیت اور وقتا فوقتا بدلتے احساسات اور جذبات اور ان کی ہمارے سوچ اور عمل پر اثراندازی کو سمجھنے اور انھیں مثبت طریقے سے ڈھالنے کو سیلف ریگولیشن یا خود انتظامی کہا جا تا ہے ۔

تناو کو ہم کیسے درست اور مثبت طریقے سے کنٹرول کر سکتے ہٰیں اس کے لیے بنیادی اور پہلا قدم اپنے احساسات کو سمجھنا ہے جو کہ نہایت ضروری ہوتا ہے تب انھیں منظم کرنے کی صلاحیت کو فروغ دیا جاسکتا ہے اس کے لیے جو تکنیک استعمال کیے جاتے ہیں ان میں سے سب سے اہم دباو اور بحرانی کیفیت کے زیر اثر اپنے آپ کو پرسکون اور قابو میں رکھنا ہوتا ہے تناو کی کیفیت میں پرسکون رہنا خاصا مشکل ہوتا ہے اور ردعمل دینا فطری ہوتا ہے ڈاکٹر گولمین اپنی کتاب جذباتی ذہانت میں ایک جاپانی سپہ سالار اور مذہبی پیشوا کا قصہ سناتےٰہیں کہ ایک مرتبہ ایک سپہ سالار ایک مذہبی پیشوا کے پاس آتا ہے اور ان سے جنت اور دوزخ کے بارے پوچھتا ہے تو مذہنی پییشوا ان سے کہتا ہے کہ آپ ایک جاہل اور گنوار کے سوا کچھ نہیں ہیں اور میرے پاس آپ جیسے گنواروں کے لیے فالتووقت نہیں ہوتا ایسے میں سپہ سالار اپنی تلوار میان سے نکالتا ہے اور پیشوا سے کہتا ہے آپ کی اس گستاخی پر میں آپ کا قتل کرسکتا ہوں۔ پییشوا بڑے تحمل سے جواب دیتا ہے کہ یہی دوزخ ہے ۔

سپہ سالار یہ سنتے ہی ہکا بکا رہ جاتا ہے کہ پیشوا اس غصے کے بات کر رہا تھا جس نے سپہ سالار کو تلوار نکالنے پر مجبور کیا۔ اسی میں سپہ سالار اپنی تلوار دوبارہ میان میں رکھتا ہے اور پییشوا کو جھک کر سلام کرتا ہے۔ پیشوا پھر کہتا ہے یہی جنت ہے ۔

لیکن جب آپ اپنے احساسات جذبات کے دماغ جسم اور تناو کے زیر اثر رد عمل اور ان عوامل کی ایک دوسرے کے ساتھ روابط کو سمجھیں گے تب آپ تناو اور دباو کے دوران اپنے آپ کو پر سکون رکھ سکیں گے اور رفتہ رفتہ ایسی صورتحال میں یہ آپ کے لیے خودکار ردعمل بن جاتا ہے اوراس تیکنیک کو فروغ دینے سے آپ اپنے پیشہ ورانہ زندگی اور رشتوں کو موثر طریقوں سے منظم کر سکتے ہیں ۔

جذباتی ذہانت کے پیمانے کو بڑھانے کے لیے تیسرا جز دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنا ہے جسے ایمپیتی کہا جاتا ہے جب آپ اپنے اندر جذبات کی خود انتظامی کی صلاحیت کو بڑھاتے ہیں تب آپ کے لیے دوسروں کے جذبات کو سمجھنے میں آسانی پیدا ہوتا ہے اور اس کا پہلا اور اہم عنصر گہرائی سے دوسروں کو سننا ہوتا ہے اور ان کے خیالات کو تسیلم کرنا اور سمجھنا اہم ہوتا ہے نا کہ فوری طور پر ردعمل دینا اور تکرارکرنا ہوتا ہے تسلیم کرنے سے مراد ہرگزیہ نہیں کہ آپ دوسروں کے خیالات کو قبول کر کے ان کو لے کر چلیں بلکہ تسلیم کرنے سے مراد انھیں سمجھنے کے لیے ان کا اعتراف کرناہوتا ہے مثال کے طور پر اگر آپ کا بچہ روتا ہوا آپ کے پاس آئے اور کہے کہ فلانہ نے مجھے مارا ہےتو آپ اگر بچے سے کہیں کہ اس میں ضرور آپ کی غلطی ہوگی جیسے عام طور پر ہمارے ہاں بچوں کے ساتھ رویہ ہوتا ہے تو آپ بچے کے احساسات کو سمجھے بغیر فیصلہ سنا رہے ہیں اور وہ بچہ آگے سے آپ کے ساتھ اپنے احساسات کبھی نہیں بانٹے گا اس سے والدین اور بچوں کے درمیاں جذبات کے حوالے سے دوری پیدا ہوتی ہے اور ایسے بچے مستقبل میں بڑے ہو کرسماجی اور ذہنی حوالوں سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح سماجی روابط میں بھی اگر آپ دوسروں کی بات کو گہرائی سے سنے اور سمجھے بغیر جواب دیتے ہیں تو اس سے تکرار جنم لیتا اور نتیجہ تعلقات میں خلل اور دوری کی صورت میں نکلتا ہے اس لیے جذباتی ذہانت کے پیمانے کو بڑھانے اور فروغ دینے کے لیے سننا اور احساسات کو تسلیم کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس تکنیک سے آپ دوسروں کے ساتھ مضبوط پیشہ ورانہ اور سماجی رشتوں کو فروغ دے پائینگے ۔

جذباتی ذہانت کے پیمانے کو بڑھانے اور فروغ دینے کے لیے چوتھا اور آخری صلاحیت سماجی بیداری ہے جو کہ جذبات اور احساسات کی خود انتظامی اور دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی صلاحیتیوں کا امتزاج ہے سماجی صلاحیت دوسروں کو سمجھنے ان کے ساتھ موثر طریقے سے گفتگو اور مثبت روابط کو کہتے ہیں اس سے آپ دوسروں کےساتھ اچھے خوشگوار اور معنی خیز تعلقات قائم کر سکتے ہیں جسے جذباتی ذہانت کی روح بھی کہا جاتا ہے کیونکہ جذباتی ذہانت صرف اپنے یا دوسروں کے جذبات احساسات کو صرف سمجھنا نہیں بلکہ انھیں کامیابی سے روزمرہ کی گفتگو اور دوسروں کے ساتھ تعلقات میں موثر طریقے سے اطلاق کرنا بھی ہوتا ہے اور یہ صلاحیت تنازعات کے حل اور رہنماوں کے لیے اپنے کارکنوں کی حوصلہ افزائی کے لیے بھی ضروری ہوتے ہیں ڈاکٹر گولمین کے مطابق سب سے دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ آئی کیو کے مقابلے ای کیو کے پیمانے اور صلاحیت کو کوشش اور سیکھنے سے ہم بڑھا سکتے ہیں ۔

سائکالوجسٹ ڈاکٹر ڈیبورہ روزمان جذبات کو منظم اور ریگولیٹ کرنے کے حوالے سے کہتی ہیں کہ یعنی اگر ٓاپ اپنے جذبات کو منظم نہیں کر سکتے تو ٓآپ کی جذبات آپ کو منظم کریں گے ۔ “If you don’t manage your emotions, your emotions will manage you.”

یہ بھی پڑھیں

فیچرز