واشنگٹن (ہمگام نیوز)میڈیا ادارے فارن افیئرز میں شائع ہونی والے ایک مضمون میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2009ء کے بعد ماورائے عدالت قتل ہونے والے 4557 افراد کی لاشیں برآمد ہوئیں۔
حالیہ برسوں میں بلوچ، پشتون اور سندھی قوم پرستوں کو لاپتہ کئے جانے کے واقعات میں بہت زیادہ اضافہ ہوا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ 2014ء سے 2020ء تک 5 سے 6 ہزار افراد کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا۔ لاپتہ افراد میں 56 سالہ عمر ادریس خٹک بھی شامل ہیں جو نومبر 2019ء میں پشاور کے قریب سے لاپتہ ہوئے تھے۔ عمر ادریس خٹک کی بیٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جانب سے انکی بازیابی کیلئے مہم چلانے کے بعد انٹیلی جنس حکام نے رواں سال جون میں اعتراف کیا تھا کہ عمر ادریس خٹک انکی تحویل میں ہیں، تاحال انہیں رہا نہیں کیا گیا۔
اقوام متحدہ کے ورکنگ گروپ برائے جبری گمشدگیاں کے مطابق 1980ء سے 2019ء کے درمیان پاکستان سے جبری گمشدگیوں کے 1144 مقدمات درج ہوئے جن میں سے 731 تاحال لاپتہ ہیں، تاہم زیادہ تر معاملات اقوام متحدہ تک پہنچے ہی نہیں۔
انسانی حقوق کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز (بی بی ایم پی) کے مطابق بلوچستان سے اب تک 6000 سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں۔ 2009ء کے بعد سکیورٹی فورسز کی طرف سے اغوا کئے گئے 1400 افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ 18 ماہ کے دوران بلوچستان میں باغیوں کی سرگرمیوں میں اضافے کے ساتھ گمشدگیوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جنوری 2020ء اور اگست کے درمیان 139 افراد کو بلوچستان سے اغوا کیا گیا جن میں سے صرف 84 افراد کو رہا کیا گیا۔
ترجمان بلوچستان حکومت نے ’گارڈین‘ سے گفتگو کرتے ہوئے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ”اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہیں اور اسے حل کر رہے ہیں، تقریباً 4000 افراد کو رہا کیا گیا ہے۔“
رپورٹ کے مطابق سندھ میں حال ہی میں متعدد قوم پرست تنظیموں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ سندھ کی وائس فار مسنگ پرسنز نامی تنظیم کے مطابق 152 افراد لاپتہ ہیں، جن میں زیادہ تر سیاسی کارکنان شامل ہیں۔ انسانی حقوق کمیشن پاکستان کے اسد بٹ نے بتایا کہ مرکزی شہر کراچی میں 250 کے قریب لاپتہ ہونے والے افراد تاحال واپس نہیں مل سکے۔ سندھ کے لاپتہ ہونے والے ایک درجن کے قریب سیاسی کارکنوں کے رشتہ دار انصاف کے مطالبے کیلئے کراچی سے دارالحکومت اسلام آباد تک 1500 میل لمبا مارچ کر رہے ہیں جس میں تین مہینے کا وقت لگے گا۔
جبری گمشدگیوں کے حوالے سے پاکستان کے وفاق کے سابق زیر انتظام قبائلی علاقہ (فاٹا) سر فہرست ہے۔ یہ علاقہ ملکی اور غیر ملکی فوجی کارروائیوں اور دہشتگردوں کا دیرینہ مرکز رہا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 2007-08ء میں شروع ہونے والے فوجی آپریشن کے بعد فاٹا سے تقریباً 8 ہزار افراد کو اغوا کیا گیا تھا جن میں سے صرف 1500 افراد کو رہا کیا گیا ہے۔ اس خطے میں جبری گمشدگیوں کے مسئلہ کو اجاگر کرنے والے سیاسی کارکن منظور پشتین کا کہنا ہے کہ ”گمشدگیوں کا یہ سلسلہ بدستور جاری ہے، اس معاملے کے مجرموں کو سزا دیئے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا، وہ جانتے ہیں کہ وہ قانون سے بالاتر ہیں۔“ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ 1970ء کی دہائی میں شروع ہوا لیکن
2001ء کے بعد پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں خاص طور پر آئی ایس آئی نے اس طریقہ کو اس وقت اہم ہتھیار بنا لیا جب پاکستان دہشتگردی کے خلاف امریکی جنگ میں مرکزی حیثیت اختیار کر گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت القاعدہ کے سینکڑوں مشتبہ عسکریت پسندوں کو امریکی انتظامیہ کے لئے اغوا کر کے خفیہ طور پر گوانتا ناموبے جیل بھیجا گیا۔
انسانی حقوق کے کارکنان خفیہ ادارے پر ’ریاست کے اندر ریاست‘چلانے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ اس ادارے کی 10 ہزار سے زائد افراد میں زیادہ تر خدمات انجام دینے والے فوجی افسران ہیں۔ اغوا کا شکار بننے والے مشتبہ اسلامی یا علیحدگی پسند عسکریت پسند ہیں لیکن سیاسی مخالفین، کارکنان، طلبہ، سیاستدان، انسانی حقوق کے کارکن، صحافی اور وکلا کو بھی بغیر کسی قانونی عمل کے اغوا کیا جانا معمول ہے۔