نئی دہلی (ہمگام نیوز) بھارت کے کامیاب اور کم گو سابق وزیراعظم منموہن سنگھ 92 سال کی عمر میں چل بسے ہیں۔ بھارت کے پہلے سکھ وزیراعظم کی وفات ہسپتال میں ہوئی ہے۔

92 سالہ منموہن سنگھ کو جمعرات کے روز حواس جی شکایت کے باعث ہسپتال لے جایا گیا تھا۔

اپنے دور وزارت عظمیٰ کے دوران منموہن سنگھ نے بھارت کو معاشی ترقی کی راہ پر لانے اور لاکھوں شہریوں کو غربت کی سطح سے اوپر لانے میں کردار ادا کیا تھا۔

وزیراعظم نریندر مودی نے منموہن سنگھ کی وفات پر کہا ‘ایک عظیم لیڈر ڈاکٹر منموہن جی کو بھارت نے کھو دیا۔’

انہوں نے ایک غریب خاندان میں آنکھ کھولی۔ وہ 1932 میں اس علاقے میں پیدا ہوئے جو اب پاکستان کا حصہ ہے۔ تاہم غربت کے باوجود انہیں بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا۔ موم بتی کی روشنی میں پڑھنے والا طالبعلم منموہن سنگھ کیمبرج یونیورسٹی اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی تک پہنچا۔ انہوں نے معاشیات کی تعلیم پائی۔ ان کی پی ایچ ڈی کے تھیسز کا عنوان تھا ‘بھارتی معیشت میں برآمدات اور آزادانہ تجارت کا کردار۔’

انہیں اچانک 1991 میں حکومتی معاملات میں حصہ لینے کا موقع مل گیا۔ اگرچہ وہ اس سے پہلے نہ کوئی سیاسی کیریئر رکھتے تھے نہ رجحان اور وہ وزارت خزانہ پر فائز ہوگئے۔

1996 میں انہوں نے معاشی اصلاحات کا پیکج پیش کیا۔ تاکہ بھارتی معیشت کو بچایا جا سکے اور اس کی ادائیگیوں کے توازن کو بہتر کیا جا سکے۔

اس کے علاوہ بھی انہوں نے تجارت اور کاروبار کو نجی شعبے کے حوالے کرنے سے متعلق کافی اقدامات کیے۔

منموہن سنگھ نے بجٹ کے موقع پر کی گئی تقریر میں میڈن ہیگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا ‘ اس تصور کو کوئی طاقت زمین پر روک نہیں سکتی جس کے زمین پر آگے بڑھنے کے حالات پیدا ہو چکے ہوں۔’

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی معیشت کو اب آگے بڑھنا ہے۔ اپنے انہی آئیڈیاز کے ساتھ منموہن سنگھ بھارت کے وزیراعظم بن گئے۔ ان کا وزیراعظم بننا کافی غیر متوقع تھا۔ تاہم انہیں سونیا گاندھی نے یہ ذمہ داری سنبھالنے کے لیے کہا۔

اطالوی نژاد سونیا گاندھی کو یہ خوف تھا کہ اگر انہوں نے خود وزیراعظم بننے کی کوشش کی تو قوم پرست ہندوؤں کی جماعت اس بات کو ایشو بنائے گی اور کانگریس کو نقصان پہنچائے گی۔

منموہن سنگھ کے زمانے میں بھارتی معیشت کی شرح نمو میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ انہوں نے شہریوں کے لیے بہبود کی سکیمیں اور روزگار کے مواقع پیدا کیے۔ تاکہ دورافتادہ غربت زدہ آبادیوں کو آسانی مل سکے۔

2008 میں انہوں نے جوہری توانائی کے حوالے سے امریکہ کے ساتھ ایک غیر معمولی طور پر اہم معاہدہ کیا۔ جس نے نہ صرف یہ کہ بھارت کو ترقی کے راستے پر گامزن کر دیا بلکہ امریکہ و بھارت کے درمیان تعلقات کو بھی غیر معمولی طور پر بڑھا دیا۔

وہ کہا کرتے تھے کہ تاریخ مجھ پر زیادہ مہربان رہے گی۔

سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کی بیوہ سونیا گاندھی کا خاندان 1947 سے بھارت میں سیاسی میدان میں غیر معمولی اثر و رسوخ رکھنے والا ایک مقتدر خاندان ہے۔ اس لیے سونیا گاندھی کا کانگریس پر اثر و رسوخ برقرار رہا اور اہم فیصلے وہی کرتی رہیں۔

منموہن سنگھ اپنے سادہ طرز زندگی ، ایمانداری اور انکساری کی وجہ سے کبھی بھی ایک کرپٹ لیڈر کے طور پر نہیں جانے گئے۔ تاہم ان کے دوسرے دور وزارت عظمیٰ میں ان کی حکومت کئی طرح کے سیکنڈلوں کی زد میں آگئی اور کئی طرح کے احتجاج ہونے لگے۔

2012 میں کانگریس کی اس حکومت کو اس وقت اقلیت میں بدلنا پڑا جب کانگریس کی اہم اتحادی جماعت نے احتجاجاً علیحدگی اختیار کر لی کہ ملک میں غیر ملکی کاروباری کمپنیاں داخل ہو رہی ہیں۔ 2 سال بعد کانگریس کو فیصلہ کن طریقے سے راستے سے ہٹنا پڑا اور ان کی جگہ بھارتیہ جنتا پارٹی آگئی اور وزارت عظمیٰ نریندر مودی کے ہاتھ میں آئی۔ جس نے اعلان کیا کہ معیشت کو آگے بڑھائیں گے اور سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔

تب سے اب تک مودی وزارت عظمیٰ پر فائز ہیں اور بھارت کے ایک مضبوط رہنما بن چکے ہیں۔

منموہن سنگھ نے سوگواروں میں اہلیہ اور تین بیٹیاں چھوڑی ہیں۔