ڈھاکہ (ہمگام نیوز) ویب ڈیسک کی رپورٹ کے مطابق پیر کو آنے والی میڈیا رپورٹس کے مطابق بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے بھارت کو ایک سفارتی نوٹ بھیج کر سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو ڈھاکہ واپس بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے۔
شیخ حسینہ پانچ اگست کو اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد سے بھارت میں مقیم ہیں۔
ڈھاکہ میں واقع ’انٹرنیشنل کرائم ٹر بیونل‘ (آئی سی ٹی) نے شیخ حسینہ، ان کی حکومت کے سابق وزرا اور سابق فوجی و سول افسران کے نام گرفتاری وارنٹ جاری کیا ہے اور ان پر انسانیت کے خلاف جرائم اور نسل کشی کا الزام عائد کیا ہے۔
عبوری حکومت میں امور خارجہ کے مشیر توحید حسین نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بھارت کو ایک سفارتی نوٹ ارسال کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عدالتی کارروائی کے لیے بنگلہ دیش شیخ حسینہ کی واپسی چاہتا ہے۔
قبل ازیں امور داخلہ کے مشیر جہاں گیر عالم نے کہا کہ ان کے دفتر نے شیخ حسینہ کی حوالگی کے لیے وزارت خارجہ کو ایک خط ارسال کیا ہے۔
ان کے مطابق ڈھاکہ اور نئی دہلی کے مابین حوالگی معاہدہ ہے جس کے تحت شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش واپس بھیجا جا سکتا ہے۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے ترجمان رندھیر جیسوال نے بنگلہ دیش سے سفارتی نوٹ ملنے کی تصدیق کردی ہے تاہم یہ بھی کہا ہے کہ بھارت کو ابھی اس پر کچھ نہیں کینا ہے۔
سرکردہ بھارتی شخصیات کا بنگلہ دیشی عوام کے نام خط
ادھر بھارت اور بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے مابین تنازع کے باعث بننے والے ایک اور معاملے پر پیش رفت سامنے آئی ہے۔
بھارت کی 650 سے زائد سرکردہ شخصیات نے بنگلہ دیشی عوام کے نام اپنے کھلے خط میں اقلیتوں کا تحفظ یقینی بنانے پر زور دیا ہے۔
نھوں نے اس بات پر زور دیا کہ اقلیتوں، ان کی املاک اور ان کے تجارتی اداروں پر حملے بند ہونے چاہئیں اور انھیں ترک وطن کے لیے مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔
بنگلہ دیش میں ہندووں کے گھروں، املاک اور تجارتی اداروں پر ہونے والے مبینہ حملوں کے خلاف بھارت کی متعدد ہندو تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا ہے۔
اسی احتجاج کی کڑی میں اگر تلہ میں بنگلہ دیش کے مشن کے دفتر پر تین دسمبر کو حملہ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے مشن نے ویزا کے اجرا اور دیگر خدمات کو معطل کر دیا ہے۔ بھارت کی وزارت خارجہ نے اس حملے کی مذمت کی تھی۔
اس حملے کے بعد بنگلہ دیش نے بھارت کے ہائی کمشنر پرنے ورما کو وزارت خارجہ میں طلب کیا تھا اور مشن پر ہونے والے حملے پر شدید احتجاج درج کیا تھا۔
حال ہی میں بھارتی پارلیمنٹ میں حکومت اور حزبِ اختلاف کے ارکان نے بھی یہ معاملہ اٹھایا ہے۔
بنگلہ دیش میں ہندو اقلیت پر حملوں سے متعلق وہاں کی حکومت کے عبوری سربراہ محمد یونس کا مؤقف رہا ہے کہ حکومت اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کے تحفظ کی پابند ہے۔
انھوں نے بعض مندروں کا دورہ کرکے ہندووں کو ان کے تحفظ کی یقین دہانی بھی کرائی تھی۔
بھارت میں مذہبی ہم آہنگی متاثر ہونے کے خدشات
بنگلہ دیشی عوام کے نام خط لکھنے والی شخصیات نے بنگلہ دیش میں اقلیتوں کے ساتھ سلوک سے متعلق خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس سے بھارت میں بھی غیر یقینی صورت حال پیدا ہوسکتی ہے اور یہاں بھی فرقہ وارانہ ہم آہنگی متاثر ہونے کا امکان ہے۔
خط میں مزید کہا گیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ڈیڑھ کروڑ اقلیتی آبادی ہے جن میں ہندو، بودھ، مسیحی، شیعہ، احمدی اور دیگر شام ہیں اور انہیں سنگین صورت حال کا سامنا ہے۔
اس کھلے خط پر دستخط کرنے والوں میں سابق ججز، سابق سفیر، وائس چانسلرز سمیت ماہرین تعلیم، سابق بیوروکریٹ، ریٹائرڈ فوجی افسران اور سول سوسائٹی کے ارکان شامل ہیں۔
خط کے مطابق بھارت کے عوام بنگلہ دیش کی صورت حال کو تشویش کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ ان کے خیال میں وہاں انتشار کی صورت حال ہے اور فیصلہ سازی پر بھیڑ اثر انداز ہو رہی ہے۔
خط میں تمام شہریوں اور اداروں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ ملک میں اقلیتوں کے حقوق کے ساتھ ساتھ جمہوریت اور سیکولرزم کو بھی بحال کریں۔
ان کے مطابق اس بحران پر جلد آزاد، صاف ستھرے اور شفاف انتخابات سے قابو پایا جا سکتا ہے۔ اس عبوری دور میں اقلیتوں اور ان کی املاک پر حملے بند ہونے چاہئیں۔ یہ حملے بھارتی عوام کے لیے قابل قبول نہیں ہیں۔
بنگلہ دیشی عوام کے نام اس کھلے خط میں دونوں ممالک کے درمیان معیشت سمیت دیگر شعبوں میں تعاون پر بڑھانے پر بھی زور دیا گیا ہے۔
’تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے‘
سینئر تجزیہ کار گوتم لہری کے مطابق بنگلہ دیش میں مذہبی انتہاپسندوں کی سرگرمیاں نہ صرف بنگلہ دیش کے لیے بلکہ بھارت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔
ان کے بقول بھارت کے خارجہ سکریٹری وکرم مسری گزشتہ دنوں بنگلہ دیش کے اپنے ہم منصب کی دعوت پر وہاں گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ توقع تھی کہ اس دورے سے باہمی رشتوں میں بہتری آئے گی لیکن اگر تلہ میں بنگلہ دیشی مشن کے دفتر پر ہونے والے حملے کے واقعے نے صورت حال خراب کر دی۔
قبل ازیں سول سوسائٹی کی ایک تنظیم ’سٹیزنز فار فریٹرنٹی‘ کی جانب سے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس کے نام ایک خط لکھا گیا تھا۔
اس خط میں بھی اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی مذمت کی گئی تھی اور بنگلہ دیش کی انتظامیہ سے مناسب کارروائی کی اپیل کی گئی تھی۔