“جب بھی کسی سے بات کرو تو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرو” ‎ یہ الفاظ میرے والد شہید سگار امیربخش بلوچ کے تھے۔یہ الفاظ ایک عام سی نصیحت سے کہیں بڑھ کر تھے، گویا میرے وجود کو نئی روح دینے والا ایک روشن چراغ۔ جب میری نگاہیں جھکی رہتی ہیں ، میرے لب ہچکچاہٹ کا شکار ہوتے ہیں اور میں زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے سے گریزاں ہوتی ہوں تو والد کی یہ بات میری روح کی گہرائیوں اور وجود میں ایک نئی روشنی بھر دیتی ہے ۔ وہ دن اور آج کا دن میری نگاہیں ہچکچاہٹ اور کمزوری کے بوجھ سے آزاد ہو چکی ہیں، اور میں نے دنیا کو دیکھنے کا سلیقہ اور خود کو پیش کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔

‎آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا، بظاہر ایک سادہ سا جملہ ہے، مگر اس کی گہرائی میری وجود کی تعمیر کی بنیاد بن گئی۔ یہ محض اعتماد کا اظہار نہیں بلکہ اپنے ہونے ، اپنی ذات کی گواہی دینے کا ہنر ہے۔ اس سادہ سی نصیحت نے مجھے اپنے ذات کی اہمیت کا احساس دلایا ، یہ سکھایا کہ اپنے الفاظ خیالات اور احساسات کو پر وقار طریقے سے پیش کرنا درحقیقت ایک طاقت ہے۔میری زندگی میں یہ جملہ دیپ کی روشنی کی مانند ہے، جو مجھے ہر اندھیرے میں راستہ دکھاتا ہے۔ یہ سکھاتا ہے کہ انسان کی قدر اس کی خودداری اور عزتِ نفس سے ہیں ، اور یہ کہ جھکی ہوئی نگاہیں گو شرم و حیا کی علامت ضرور ہو سکتی ہیں، لیکن کہیں کہیں نگاہوں کی جرات ہی انسان کے وجود کی گواہی بن جاتی ہے۔اس ایک جملہ نے مجھے سمجھایا کہ آنکھیں محض دیکھنے کا وسیلہ نہیں ہوتی بلکہ اپنے خیالات، اپنی قوت اور اپنی ذات کا آئینہ بھی ہیں۔ والد کے یہ الفاظ میرے لئے وہ ابتدا تھے جس نے زندگی کے ہر لمحے میں میری شخصیت کو نکھارا، میری سوچ کو آزاد کیا اور مجھے اپنوں کے ساتھ ہونے کے احساس دلایا ۔ شاید یہ کہنا مبالغہ نہ ہو کہ زندگی کا تعین کرنے کے لیے کبھی کبھی ایک جملہ ہی کافی ہوتا ہے۔ ‎ وہ گل زمین کا سپاہی تھا، ایک ایسا سپاہی جو اپنی بہادری، خلوص، وفا اور عزم کی روشن مثال بن گیا۔ ان کے کارنامے ہر زبان پہ عام وخاص ہیں ، لیکن ان کے دل میں چھپے ہوئے احساسات ،ان کے خواب اور آزادی کی جستجو وہ راز تھے جو شاید میں بھی الفاظ کے دامن میں مکمل طور پر ہزار کوششوں کے باوجود سمیٹ نہ سکوں وہ ایک ایسے پروانے کے مانند تھے جو خود جل کر اردگرد کو روشنی عطا کرتا رہا اور وہ روشنی نوید ہو ان راہوں کی جو غلامی کے اندھیروں کو مٹا دے۔

‎ان کا نصیب و خوش بختی یہ تھا کہ وہ نواب ھیربکش مری جیسے زیرک مدبر اور سنگت ھیر بیار مری جیسے سیاسی قدآور رہنما کی صحبت میں پرورش پایا۔ نواب مری کے افکار و نظریات ان کے لیے ایک راہ تھی اور ان افکار کی روشنی اور سنگت کے زیر سایہ وہ اپنی زندگی کی سمت متعین کر چکا تھا۔ بلوچ سرزمین کی آزادی اور وقار ان کے لیے محض مقصد نہیں بلکہ ایمان کی طرح مقدس تھی، انہوں نے اپنی پوری زندگی بلوچ قوم کی آزادی کی راہ کے لیے وقف کر دی،وہ نواب مری کے اولین ساتھیوں میں سے ایک تھے۔یہ نہ صرف ان کی بصیرت کی گواہی دیتا ہے بلکہ یہ ان کے کردار کی مضبوطی اور ان کے فیصلوں کی پختگی کا ثبوت بھی تھا۔ ان کے خون سے وہ گلاب کھلتے گئے جنہیں ہم قومی شعور کے کنول کہتے ہیں اور ہر ایک بوند ہر ایک قربانی اس امر کی گواہی دیتی ہے کہ وہ صرف ایک فرد نہیں بلکہ ایک تحریک تھا، ایک داستان تھا، اور ایک عزم کا پیکر اور بلوچ وطن کی آزادی کا سپاہی تھا ۔

‎اس گل زمین کے سپاہی نے جو دیا جلایا اس کی روشنی ہر سو پھیلی ہے اوراس خوشبو آج بھی متحدہ بلوچستان میں محسوس کی جاتی ہے اور اس کے خواب بلوچ سرزمین کی فضاؤں میں آج بھی سانس لیتے ہیں ۔اس کی زندگی ایک مثال ہے، اس کے نظریات ایک روشنی اور اس کا ذکر آنے والے ہر زمانے کا فخر رہے گا۔وہ محض شوریدہ تقاریر و جذباتی نعروں پہ یقین نہیں رکھتے تھے وہ ان چیختی و پکارتی آوازوں کو ان لوگوں کی تشنیع تصور کرتے تھے جو نیند کی حالت میں حرکت کر رہے ہوں، مگر حقیقت کی سرحدوں سے کوسوں دور ہوں۔ ان کے نزدیک آزادی محض لفظوں کی گرمی سے نہیں بلکہ شعور، عمل اور قربانی کے امتزاج سے ممکن ہے۔ بابا مری کی طرح وہ مسلح جہد کو آزادی کاجوہر سمجھتے تھے جب ڈاکٹر اللہ نذر سڑکوں پر نعرہ زن تھے تو انہیں میرے والد سگار نے پیام بجھوایا کہ سڑکوں پر نعروں سے قوموں کو آزادی نہیں ملتی بلکہ میدان عمل میں اترنا پڑتا ہے اور ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے لیے تاریخ میں یہ ایک اعزاز سے کم نہیں کہ سگار نے ان کو نہ صرف عملی میدان میں آنے کا پیغام بجھوایا بلکہ میدان جنگ میں انہوں نے اپنی بندوق بھی ان کو تھما دی۔ ‎ مجھے وہ لمحہ آج بھی یاد ہے، جب میں اپنے والد کے خون آلود کپڑے دھو رہی تھی۔ وہ کپڑے جن پر وقت کی ستم ظریفی اور قربانی کی گواہی ثبت تھی میرے ہاتھوں سے گزرتے تو جیسے ہر دھارے کے ساتھ ایک نئی داستان سناتے۔ ان سے اٹھنے والی خون کی مہک آج بھی ہماری گھر کی فضاؤں میں رچی بسی ہوئی ہے۔ایک ایسی مہک جو وقت کی گرد کو مٹا کر قربانی کی حرارت کو تازہ کر دیتی ہے یہ مہک کوئی عام خوشبو نہیں یہ ہماری ذات وجود اور روح کا حصہ بن چکی ہے۔ ہر سانس کے ساتھ ہمیں قومی جہد کی یاد دلاتی ہے ،قربانی کی قیمت کا احساس دلاتی ہے، اور ہمارے حوصلوں کو توانا بخشتی ہے۔ یہ فضائیں آج بھی ابو کی داستان کو دہراتی ہیں، ان کے عزم کو محسوس کراتی ہیں اور ہمارے دلوں کو وہ سکون و راحت پہنچاتی ہے جو صرف کسی عظیم قربانی کی عظمت کو سمجھ کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔