دوشنبه, مارچ 17, 2025
Homeخبریںشاہ جان ایک مقامی تاجر اور اپنے خاندان کا واحد کفیل اور...

شاہ جان ایک مقامی تاجر اور اپنے خاندان کا واحد کفیل اور سہارا تھا۔ اس کا “جرم” صرف یہ تھا کہ وہ ایک لاپتہ طالب رہنما کا بھائی تھا۔ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ

شال ( ہمگام نیوز )بلوچ یکجہتی کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ جاری بیان میں کہاہے کہ آج بلوچستان کے علاقے نال، خضدار میں 11 سال سے جبری لاپتہ زاہد بلوچ کے بھائی، شاہ جان بلوچ کو دن دہاڑے قتل کر دیا گیا ہے۔ شاہ جان بلوچ کا نہ کسی سیاسی تنظیم سے تعلق تھا اور نہ ہی وہ کسی سیاسی یا انسانی حقوق کی سرگرمیوں میں شامل تھا۔ وہ ایک مقامی تاجر اور اپنے خاندان کا واحد کفیل اور سہارا تھا۔ اس کا “جرم” صرف یہ تھا کہ وہ ایک طلبہ رہنما کا بھائی تھا، اور وہی طلبہ رہنما خود گیارہ سال سے پاکستانی خفیہ اداروں کی حراست میں ہے۔

انھوں نے کہاکہ ریاست بلوچستان میں نہ صرف اپنے انسانی حقوق کا مطالبہ کرنے اور اختلافِ رائے رکھنے والوں کو قتل کرتی ہے، بلکہ ان کے خاندان کے اُن افراد کو بھی نشانہ بناتی ہے جن کا سیاست یا انسانی حقوق کی سرگرمیوں سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ شاہ جان بلوچ کا کیس اور ایسے سینکڑوں دیگر واقعات اس ظلم کے ثبوت کے طور پر ہمارے سامنے موجود ہیں۔

بلوچستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے ایک بھی ایسا دن نہیں گزرا جس میں ہمارے پیارے جبری طور پر لاپتہ نہ کیے گئے ہوں، ماورائے عدالت قتل یا ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ نہ بنے ہوں۔ آج پورے بلوچستان میں ایک بھی ایسا گھر نہیں جو اس ظلم اور جبر سے متاثر نہ ہوا ہو۔ ہر گھر اور ہر خاندان متاثر ہے، لیکن بلوچوں کے سوا کسی کو یہ ظلم نظر نہیں آتا۔

ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے کہا ہےکہ بلوچستان میں صرف 2025 کے ابتدائی تین مہینوں میں تین درجن سے زائد افراد کو ماورائے عدالت قتل کیا جا چکا ہے۔ آج ہی کے دن خضدار نال میں شاہ جان بلوچ نامی نوجوان کو ٹارگٹ کرکے قتل کیا گیا۔

اس کے باوجود، ہم محض مذمتی بیانات پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ اس بربریت اور لاقانونیت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور انصاف و احتساب کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ مذمت محض ایک دکھاوا ہے اور نہ یہ دیرینہ مسائل کا حل ہے اور نہ ہی حقیقی انصاف کی طرف کوئی پیش رفت۔ بلکہ یہ اس ملک کے طاقتور حکمرانوں کو کلین چٹ دینے کا ایک ذریعہ ہے—وہی حکمران جو قانون، اخلاقیات اور انسانی حقوق کی کوئی پروا نہیں کرتے اور اپنی ناکامی، ظلم اور بربریت چھپانے کے لیے مذمت کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔

انھوں نے کہاہے کہ جب قانون کا نفاذ ہوگا اور احتساب کا عمل حقیقی معنوں میں شروع ہوگا، تو کسی کے ساتھ ظلم و زیادتی نہیں ہوگی۔ مگر یہاں انصاف کی فراہمی کے بجائے سب کو مذمت کے پیچھے لگا دیا جاتا ہے تاکہ توجہ اصل مسائل سے ہٹا دی جائے اور ریاست اپنی نااہلی کو چھپا سکے۔

اس کے ساتھ، میں بلوچ قوم سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ بلوچستان سے باہر بیٹھے اُن عناصر کے دباؤ میں نہ آئیں، جنہیں بلوچوں پر ہونے والا ظلم، جبر اور قتل و غارت کبھی نظر نہیں آتا، لیکن وہ نہ صرف ہمیں اپنی جدوجہد کے طریقے سکھانے آ جاتے ہیں بلکہ فرمائشی مذمت کا مطالبہ بھی کرتے ہیں۔

ڈاکٹر ماہ رنگ نے آخر میں کہاہے کہ ہماری اصل طاقت اور ہمت بلوچستان کے اُن لوگوں سے ہے جو ہر لمحہ اس خوف میں جیتے ہیں کہ جو صبح گھر سے نکلا، وہ شام کو سلامت لوٹے گا یا نہیں۔ اگر آپ ثابت قدم رہیں گے، تو دنیا ہماری پُرامن جدوجہد کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگی۔ مذمت محض ایک سطحی ردِعمل ہے، جبکہ ہمارا مقصد حقیقی تبدیلی اور انصاف کا حصول ہے، جس کے لیے ہمیں اپنے راستے کا تعین خود کرنا ہوگا، نہ کہ اُن لوگوں کے کہنے پر جو ہماری تکالیف سے یکسر بے خبر ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

فیچرز