بلوچستان کے دلکش اور بلند و بانگ بولان کے پہاڑوں میں ایک ایسی داستان رقم ہوئی جو رہتی دنیا تک بلوچ نسل کے حوصلے اور سرمچاروں کی قربانیوں کی گواہی دیتی رہے گی۔ یہ کہانی ہے ہمارے چھ درخشاں سپوتوں کی، جنہوں نے آزادی کی راہ میں تاریخ اپنے خون سے لکھ دی۔ ان کی شہادت صرف ایک لمحہ نہیں، ایک عہد ہے—کہ وطن کی محبت ہر قربانی سے بڑھ کر ہے۔
یہ اس وقت کی بات ہے جب بولان کے پہاڑوں میں ہرنائی کے علاقے میں چھ بلوچ سرمچار ایک خفیہ مشن پر محوِ سفر تھے۔ ان کے چہروں پر چٹان سا صبر، آنکھوں میں خوابوں کی چمک، اور قدموں میں منزل کی طرف بڑھتا غیر متزلزل یقین تھا۔ وہ نہ صرف چل رہے تھے، بلکہ تاریخ رقم کر رہے تھے۔ ہر قدم ایک کہانی، ہر نگاہ ایک امید تھی۔
12 ستمبر کی صبح، جب بولان کی چوٹیوں پر سورج کی پہلی کرن بھی نہ پڑی تھی، اچانک دھماکوں نے خاموشی کو چیر ڈالا۔ کچھ ہی لمحوں بعد فضا میں ہیلی کاپٹروں کی گرج گونجی—ان کی نگاہیں اس مقام پر مرکوز تھیں جہاں ہمارے چھ سرمچار خیمہ زن تھے۔ بارود کی بو، گولیوں کی گونج اور گرد آلود فضاء کے بعد جو منظر باقی بچا، وہ دل دہلا دینے والا تھا۔ شہادت کی وہ ساعت وقت کی رگوں میں ہمیشہ کے لیے منجمد ہو گئی۔
ساتھیوں پر حملے کی اطلاع ملتے ہی ہم نے وہاں جانے کا فیصلہ کیا، اگر چہ ہم تعداد میں میں کم تھے، مگر ہمارے عزم میں کوئی کمی نہیں تھی، ہم نے فیصلہ کیا کہ جو بھی ہو، ہم نے شہیدوں کے مقام کو سنبھالنا ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے بھائیوں کا آخری پڑاؤ تھا۔ رات کی سیا دھند میں جب ہمارے سنگتوں نے اس مقام کی جانب رخت سفر باندھ لی، تو ہر قدم پر شہیدوں کی یادیں ساتھ چل رہی تھیں۔ دوران سفر ہر سنگت کے چہرے پر عزم کی چمک تھی، ہتھیاروں پر شہیدوں کے نام لکھے ہوئے تھے، واکی ٹاکی سے آیا ہؤا پیغام جو ہمیں یاد دلاتی رہیں کہ ہم کیوں جا رہے ہیں۔ سفر کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ساتھیوں کی شہادت پر بولان کے پہاڑ بھی ماتم کناں تھے۔ ہر پتھر غم سے نڈھال، ہر بہتی چشمہ رو رہا تھا اور کھلا آسمان صبر ِجمیل کا مظہر تھا۔
جب ہم اس مقام پر پہنچے جہاں ہمارے چھ ساتھی شہادت پا چکے تھے، فضا میں خاموشی اور درد کی ایک لہر پھیلی ہوئی تھی۔ لاشیں ساکت تھیں، لباس لہو سے تر، اور آس پاس دھواں اب بھی اٹھ رہا تھا۔ زمین پر اسلحہ، بکھرا ہوا سامان، اور کچھ ذاتی اشیاء—کسی کا بٹوا، کسی کی ڈائری، جس کے آخری ورق پر تحریر تھا: ‘ماں، فکر نہ کرنا، میں جنت جا رہا ہوں۔’ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے شہداء کی میتیں اپنے وارثوں کو آخری سلام پیش کرنے کے منتظر ہوں۔ وقت وہاں تھم سا گیا تھا، اور ہر شے قربانی کی ایک ان کہی داستان سنا رہی تھی۔
بولان کے پہاڑ اور وادی گواہ ہیں کہ جو چھ بلوچ سرمچار وطن کی خاطر قربان ہوئے، وہ ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئے۔ نمیرانیں سرمچاروں میں شامل:
شہید شفو سمالانی بلوچ عرف تادین بولان غربو آپ جو کہ ایک انتہائی مخلص جفاکش محنتی سرمچار تھا۔ شہید شفو سنگتوں کے دلوں میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔
شہید صمد خان مری بلوچ عرف دوستین بولان غربو کا شہیدوں کے گھر سے تعلق: جہاں ہر دروازہ قربانی کی داستان بیان کرتا ہے۔
شہید محمد گل مری بلوچ عرف وحید چمالنگ برگ وہ گھرانہ جس کا پانچواں بیٹا شہید ہوا: ایک ماں کا صبر، ایک قوم کا فخر سے بلند سر
اس گھر کے دروازے پر لگی تختی پر لکھا ہے:
“یہاں سے پانچ جوانوں نے جنت کی راہ لی”
ہر ایک کے شہادت کے بعد ماں نے نئے سرے سے قرآن رکھا، اور باپ نے اپنے بیٹے کی تصویر کو سینے سے لگایا۔ یہ کوئی عام گھر نہیں، جہاں ہر صبح فجر کی اذان کے ساتھ پانچ شہیدوں کے قدم کی آہٹ سنائی دیتی ہے۔
کاہان نساؤ جبھر سے تعلق رکھنے والا شہید غلام قادر مری بلوچ عرف انجیر ! ان کی بہادری اور قربانی کے قصے آنے والی نسلیں اپنے بچوں کو بطور گیت سنائیں گے۔
شہید عبید بلوچ ولد محمد امین عرف فدا، گوادر پانوان اپنے قدرتی صلاحیتوں کیساتھ ہمیشہ ایک اچھے اور آعلیٰ سرمچار کی طرح یاد رکھا جائے گا۔
شہید تاج محمد چلگھری مری بلوچ عرف بابل بولان پل کوڈی؛ آپ کی فیملی قابض ریاست کے ظلم کی وجہ سے جلاوطن شہید کمانڈر نادر مری المعروف گونڈو، شہید لال محمد چلگھری سمیت آپ کا تعلق اس عظیم گھر سے ہے جہاں ایک چھت کے نیچے 9 شہیدوں کی فہرست ہے۔ خدا نے جو چراغ اس گھر سے روشن کیے، وہ پورے وطن کو منور کر رہے ہیں۔
یہ صرف چھ شہید نہیں، چھ چراغ تھے جو ہمیشہ ہماری راہوں کو روشن کرتے رہیں گے۔ ان کی قربانی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ وطن کی محبت میں مرنا، دراصل ایک نئی زندگی پانا ہے—ایسی زندگی جو تاریخ کے سینے میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جاتی ہے۔
یہ داستان ہمیں سکھاتی ہے کہ وطن کی حفاظت ہر قیمت پر لازم ہے، اور جب دل اتحاد کے دھاگے میں بندھ جائیں تو کوئی بھی جنگ ناممکن نہیں۔ شہادت موت نہیں، وہ حیاتِ جاوداں کا دوسرا نام ہے۔ ہر شہید زندہ ہے، صرف اُس کا پتہ بدل گیا ہے—وہ اب خالق حقیقی کے دربار میں سربلند کھڑا ہے۔
آج بھی جب بولان کی ہوائیں چلتی ہیں، تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ان چھ عظیم شہداء کے نام سرگوشی کر رہی ہوں۔ ان پہاڑوں کی خاموشی ان کے لہو کی گواہی دیتی ہے، اور ان کی قبریں زمین میں نہیں، ہماری روح میں بسی ہوئی ہیں۔
یہ قربانی ہمیں چند لازوال سچائیوں کا سبق دیتی ہے:
بلوچستان کا ہر ذرہ مقدس ہے۔
شہید کبھی نہیں مرتے، وہ قوم کے حافظے میں امر ہو جاتے ہیں۔
بولان کے پہاڑ اب محض چٹانیں نہیں بلکہ وہ آسمانی ستون ہیں، جن پر چھ سرمچاروں کی قربانیوں کی روشنی جگمگا رہی ہے۔ ہر شام جب بولان کی طرف سے ہوا چلتی ہے، تو لگتا ہے جیسے وہ ہمیں پکار رہے ہوں:
‘ہم یہاں موجود ہیں، ہم نے وطن کو سلامت رکھا ہے۔ اب یہ تمہاری ذمہ داری ہے کہ ہمارے خوابوں کو زندہ رکھو، ہماری قربانیوں کو فراموش نہ ہونے دو۔ ہمارے بلوچستان کو سنبھال کر رکھنا۔ کیونکہ ہم تو گئے، مگر تمہارے لیے ایک پیغام چھوڑ گئے۔